"محمد بن قاسم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م خودکار: خودکار درستی املا ← ان کی؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 21:
 
== ابتدائی کارنامے ==
15 سال کی عمر میں [[708ء]]کو [[ایران]] میں [[کرد|کردوں]]وں کی بغاوت کے خاتمے کے لیے سپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔<ref name="ReferenceA">انسائیکلوپیڈیا مسلم انڈیا، حصہ دوم، صفحہ77</ref> اس وقت [[خلافت امویہ|بنو امیہ]] کے حکمران [[ولید بن عبدالملک]] کا دور تھا اور [[حجاج بن یوسف]] [[عراق]] کا گورنر تھا۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی اور ایک معمولی چھاؤنی [[شیراز]] کو ایک خاص شہر بنادیا۔ اس دوران محمد بن قاسم کو [[فارس]] کے [[دار الحکومت]] [[شیراز]] کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر 17 برس تھی،<ref>جنۃ السندھ</ref>اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور 17 سال کی عمر میں ہی [[سندھ]] کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ 711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا۔<ref name="ReferenceA"/> انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کیے اور [[ملتان]] کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا لیکن [[شمالی ہند]] کی طرف بڑھنے کی خواہش حالات نے پوری نہ ہونے دی۔
 
== نظام رواداری ==
سطر 32:
== حضرت علی کو گالیاں ==
اس دور میں حضرت معاویہ کے زمانے کی شروع کردہ حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا رواج ابھی باقی تھا۔ چنانچہ تہذیب التہذیب میں آیا ہے کہ:
"حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن عوف کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے انکو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے انکیان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں"۔<ref>حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم، 262</ref>۔
 
== شخصیت و کردار ==
 
محمد بن قاسم ایک نو عمر نوجوان تھے۔ اس کم عمری میں انہوں نے سندھ کی مہم پر سپہ سالار کی حیثیت سے جو کارنامے انجام دیے وہ ان کے کردار کی پوری طرح عکاسی کرتے ہیں۔ وہ زبردست جنگی قابلیت اور انتظامی صلاحیتوں کا مالک تھے۔ ان کی ان صلاحیتوں کے ثبوت کے لیے سندھ کی مہم کی کامیابی ہی کافی ہے۔ ان کے اخلاق و کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غیر قوم ان کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ سندھ کے عوام ان سے حد درجہ چاہت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ [[تاریخ سندھ]] کے مصنف [[اعجاز الحق قدوسی]] تحریر کرتے ہیں
{{اقتباس|محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا۔ ان کی وفات پر شہر [[کیرج]] کے ہندوؤں اور بدھوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بناکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ <ref>[[تاریخ سندھ (کتاب)|تاریخ سندھ]] از [[اعجاز الحق قدوسی]] صفحہ 226</ref>}}