"چودھری رحمت علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ۔، جس؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 16:
 
== ابتدائی زندگی ==
چودھری رحمت علی [[16 نومبر]]، [[1897ء]] کو [[پنجاب (بھارت)|مشرقی پنجاب]] کے ضلع [[ہوشیار پور]] کے گاؤں مو ہراں میں ایک متوسط زمیندار جناب حاجی شاہ گجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ایک مکتب سے حاصل کی جو ایک عالم دین چلا رہے تھے۔ میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول جالندھر سے کیا۔ 1914ءمیں مزید تعلیم کے لیے لاہور تشریف لائے انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔1915ءلیا۔1915ء میں ایف اے اور 1918ء میں بی اے کیا۔
 
== تعلیمی زندگی ==
سطر 31:
1933ء میں آپ نے لندن میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28 جنوری، 1933ء، جب وہ [[کیمبرج یونیورسٹی]] میں پڑھتے تھے "اب یا پھر کبھی نہیں" (Now OR Never) کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل شہرہ آفاق کتابچہ جاری کیا۔ جو [[تحریک پاکستان]] کے قلعے کی آہنی دیوار ثابت ہوا۔ اور برصغیر کے مسلمانان و دیگر اقوام لفظ "پاکستان" سے آشنا ہوئے۔ آپ کے مطابق آپ نے یہ نام پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے اخذ کیا جہاں مسلمان 1200 سال سے آباد ہیں۔ 1935ء میں آپ نے ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" کیمبرج سے جاری کیا۔ اور اپنی آواز پہنچانے کے لیے [[جرمنی]] اور [[فرانس]] کا سفر کیا اور [[جرمنی]] کے [[ہٹلر]] سے انگریزوں کے خلاف مدد کا وعدہ لیا۔ اس کے علاوہ اسی سلسلہ میں [[امریکا]] اور [[جاپان]] وغیرہ کے سفر بھی اختیار کیا۔
 
ایسے وقت میں جب ہندو و مسلم قائدین [[لندن]] میں جاری گول میز کانفرنسوں کے دوران وفاقی آئین کے بارے میں سوچ رہے تھے، یکم اگست، 1933ء کو جوائینٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے چودھری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان وفد کے مسلم اراکین سے سوالات کیے۔ جواباً سر ظفر اللہ، [[عبداللہ یوسف علی]] اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ نے کہا کہ یہ صرف چند طلبہ کی سرگرمیاں ہیں، کسی سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں کہ جس پر توجہ دی جائے۔ 1938ء میں آپ نے [[بنگال]]، [[آسام]] اور [[حیدرآباد دکن]] کی آزادی کے حق میں بھی آواز بلند کی اور "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیا۔ جن میں پاکستان، صیفستان، موبلستان، بانگلستان، حیدرستان، فاروقستان، عثمانستان وغیرہ شامل تھے۔ جن میں جغرافیائی محل وقوع کا تعین کیا گیا تھا اور با قاعدہ نقشے دیے گئے تھے۔ اور 8 مارچ، 1940ء کو [[کراچی]] میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے حیدرآباد دکن کے لیے "[[عثمانستان]]" کے نام سے آزاد اسلامی ریاست کا خاکہ پھر پیش کیا۔
 
آپ [[لاہور]] میں ہونے 23 مارچ 1940ء کے مسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسے میں شرکت نہ کر سکے کہ [[خاکسار تحریک]] اور پولیس میں تصادم کے باعث اس کشیدہ صورت حال میں پنجاب حکومت نے آپ پر پنجاب میں داخلے کی پابندی عائد کر دی۔ جبکہ بعض حلقوں کے مطابق اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ "مسلم لیگ" کے ساتھ "آل انڈیا" کے لفظ کا استعمال تھا۔ کیونکہ آپ اس کے سخت مخالف تھے اور اس خطے کا ذکر برصغیر یا دینیہ کہہ کرکرتے تھے۔ آپ مسلمانوں کو برصغیر کے اصل وارث سمجھتے تھے کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی حکومت چھینی تھی اور تمام برصغیر کو ایک ریاست میں متحد کرنے والے بھی مسلم ہی تھے۔ اس جلسے میں اگرچہ آپ کا تجویز کردہ نام "پاکستان" شامل نہیں تھا مگر برصغیر کے ہندو پریس نے طنزاً اسے [[قرارداد پاکستان]] کہنا شروع کیا اور بالاخر یہ طنز سچ کا روپ دھار گیا۔
سطر 60:
17 روز تک کولڈ اسٹوریج میں ہم وطنوں، ہم عقیدوں، ہم مذہبوں کا انتظار کرتے کرتے بالاخر 20 فروری، 1951ء کو دو مصری طلبہ کے ہاتھوں اس غریب الوطن کے جسد خاکی کو انگلستان کے شہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی - 8330 میں لا وارث کے طور پر امانتاً دفن کر دیا گیا (کیمبرج سمیٹری، مارکٹ روڈ – کیمبرج - برطانیہ) ۔
 
وزراتوں، الاٹمنٹوں، کلیموں، ہوس اقتدار کے ماروں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کے ملک کی تحریک کے صف اول کا مجاہد 200 پونڈ کا قرض اپنی تجہیز و تکفین کی مد میں کندھوں پر لے چلا ہے۔ مگر سات دہائیوں کے بعد بھی یونہی دیار غیر میں چند گمنام مقبروں کے درمیان ابھی تک امانتاً دفن ہے۔
== اعزاز ==
حکومتِ پاکستان نے ان کی یاد میں ہیروز آف پاکستان سیریز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔
 
== مآخذ ==
* کاروان شوق۔ مولف حکیم آفتاب قرشی
* تحریک آزادی کے بے لوث قائد چوہدری رحمت علی۔ مولف عبد السلام سلامی