"سلیمان (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← \1کہ؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 59:
== دولت ==
سلیمان علیہ السلام اپنے زمانے کے امیر ترین آدمی تھے۔ اگر آج کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ 2200 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ اپنے 39 سالہ دور حکومت میں انہیں ہر سال 25 ٹن سونا بطور نذرانہ ملتا تھا۔<ref>[http://money.visualcapitalist.com/wp-content/uploads/2017/07/richest-people-in-history.html The Richest People in Human History]</ref>
 
==اقتباس==
روایت ہے کہ [[یروشلم]] کے شمال میں [[بحیرہ روم]] کے ساحل پر ٹائر (Tyre) نامی ایک بڑا تجارتی شہر تھا۔ وہاں کے بادشاہ نے اپنا سفیر بادشاہ سلیمان کے پاس بھیجا اور اپنے شہر میں امن و امان اور لوٹ مار کی بگڑتی صورتحال پر مشورہ مانگا۔ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ اگر اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں تو اپنے بادشاہ کو کہو کہ اپنی سب سے چہیتی اور خوبصورت بیٹی کی مجھ سے شادی کر دے۔ جب شادی ہو گئی تو بادشاہ سلیمان نے سفیر سے مسئلے کی تفصیلات پوچھیں۔ سفیر نے بتایا کہ شہر کے مزدور روٹی نہ ملنے کی وجہ سے اکثر لوٹ مار کرتے ہیں اور پولیس انہیں اس جرم میں قتل کرتی ہے۔ اس وجہ سے شہر کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے بادشاہ کا خیال ہے کہ عوام ہی ہماری اصل دولت ہیں۔<br>
بادشاہ سلیمان اس نتیجے پر پہنچے کہ جب شہر میں گندم کی بہتات ہوتی ہے اور قیمتیں بہت گری ہوئی ہوتی ہیں تو بھی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ مزدور گندم خرید نہیں سکتے۔ اس کے برعکس جب گندم کی شدید قلت ہوتی ہے اور قیمت زیادہ ہوتی ہے تو تنخواہ بڑھنے کے باوجود گندم مزدوروں کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے۔<br>
بادشاہ سلیمان نے سفیر کو خط دیا اور کہا کہ تمہاری زندگی اس خط کی رازداری سے مشروط ہے۔ اپنے بادشاہ کو میرا مشورہ دو کہ اپنے شہر میں امپورٹ اور ایکسپورٹ پر سے کسٹم ڈیوٹی بالکل ختم کر دے۔ اور دو سال بعد دوبارہ میرے پاس آنا۔<br>
بادشاہ سلیمان اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ٹائر کے شہر میں کسٹم کے حکام رشوت خور ہیں۔ جب وہاں کسٹم کا محکمہ ہی ختم کر دیا گیا تو تاجروں کو درآمد برآمد کی بڑی آزادی مل گئی ورنہ پہلے انہیں 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی تھی۔ بحری جہازوں کے کپتانوں اور کاروانوں نے ٹائر شہر کا رخ کیا۔ کچھ ہی دنوں میں وہاں حکومتی کرپشن سے آزاد تجارت کی وجہ سے بڑی خوشحالی آ گئی۔<br>
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر دوبارہ بادشاہ سلیمان کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ سلیمان نے اس سے کہا کہ تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے یہودی بینکاروں کی مدد سے تمہاری خوشحالی سے واقف ہوں۔ اپنے بادشاہ کو میرا دوسرا مشورہ دو کہ کسٹم کا محکمہ دوبارہ بحال کر دے مگر اس دفعہ کسٹم کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا ہو گا، ڈیوٹی وصول کرنا نہیں ہو گا۔ اب پھر دو سال بعد آنا۔<br>
دو تین سال بعد جب سفیر پھر حاضر ہوا تو بادشاہ سلیمان نے تیسرا خط دیا اور سفیر کو دو سال بعد بلایا۔ خط میں لکھا تھا کہ اپنے شہر میں بڑی ضیافت کا اہتمام کرو جس میں شہر کے سارے بینکروں کا آنا لازمی ہو اور نہ آنے والے بینکر کو فوراً شہربدر کر دیا جائے۔ ضیافت کے اختتام پر ٹائر کے بادشاہ نے کہا کہ ہمارے پاس درست ترین اعداد و شمار ہیں کہ کس نے کتنی درآمد اور برآمد کی ہے اور ان اعداد و شمار پر تم بھی مکمل اعتبار کرتے ہو۔ آج سے ہر بینکر اپنی ہر درآمد اور برآمد پر ماہانہ 10 فیصد ٹیکس دے گا۔ بینکروں نے بڑا شور مچایا مگر بادشاہ نے ایک نہ سنی۔<br>
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر پھر بادشاہ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اب اس کا شہر انتہائی خوشحال ہو چکا تھا۔ بادشاہ سلیمان نے اسے آخری خط دیا اور کہا کہ اب واپس یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس خط میں ٹائر کے بادشاہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ دوبارہ بینکاروں کو ضیافت پر بلاو اور جو بینکار نہ آئے اسے قتل کر کے اس کے بیوی بچوں کو غلام بنا کر بیچ دیا جائے۔ اور انہیں حکم دو کہ اگر شہر ٹائر میں قیمتیں 10 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 11 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 15 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 13 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 20 فیصد بڑھ جائیں تو ٹیکس 15 فیصد ہو جائے گا۔ اس زمانے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹائر کے شہر میں اگلے 70 سالوں تک قیمتیں مستحکم رہی تھیں۔<ref>[http://bardina.org/nw2/legends-uk.htm THE JUDAEO-CHRISTIAN AGREEMENT IN CATALONIA.]</ref>
 
== حوالہ جات ==