"ہندو بیواﺅں کے عقد ثانی کا قانون، 1856ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
انگریزی سے اردو ترجمہ اور تلخیص
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 13:59، 25 مئی 2019ء

ہندو بیواؤں کی شادی کا ایکٹ 1856 جسے ایکٹ 15، 1856 بھی کہا جاتا ہے، 26 جولائی 1856 کو لاگو ہوا جس کے تحت ہندو بیواؤں کو ایس انڈیا کمپنی کے ماتحت علاقوں میں دوسری شادی کا قانونی حق ملا۔ اس قانون کو لارڈ ڈلہوزی نے لکھوایا مگر اس کی منظوری لارڈ ڈلہوزی کے بعد آنے والے لارڈ کیننگ نے دی۔ اس قانون کی منظوری 1857 کے غدر سے ذرا قبل ہوئی۔ لارڈ ولیم بینٹنک کی طرف سے ستی کے خاتمے کے بعد یہ پہلی بڑی سماجی اصلاح تھی۔

خاندان کی عزت اور وراثت کے تحفظ کے لیے اعلیٰ ذات کے ہندو بیواؤں کی دوسری شادی کے خلاف تھے۔ یہ پابندی نو عمر لڑکیوں اور بچیوں پر بھی عائد ہوتی تھی۔ ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بیوہ ہونے پر پاکیزگی اور تجرد کی زندگی گزاریں گی۔ 1856 کے ایکٹ میں ہندو بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت تو دی گئی مگر اس صورت میں وہ اپنے مرحوم شوہر کی وراثت سے خارج ہو جاتی تھیں۔ اس قانون کا اصل نفاذ ان بچیوں پر ہوتا تھا جو شادی ہونے کے بعد مگر رخصتی سے قبل بیوہ ہو جاتی تھیں۔ 

ایشور چندرا ودیاساگر نے سب سے بڑھ کر اس کے لیے مہم چلائی۔ انہوں نے مقننہ میں پٹیشن دائر کی مگر رادھا کنٹا اور دھرما سبھا نے اس کے خلاف چار گنا زیادہ دستخطوں کے ساتھ پٹیشن جمع کرائی۔ لارڈ ڈلہوزی نے اس قانون کو ذاتی دلچسپی لے کر مکمل کرایا اور ہندو اسے اُس وقت کی روایات کی سخت خلاف ورزی سمجھتے تھے۔

ہندو قوانین کے مطابق پہلے شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کی دوسری شادی کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم عملی طور پر نچلی ذاتوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔

ولیم ہے میکناٹن (1862)

بیواؤں کے مسائل، بالخصوص کم عمر بیوہ بچیوں کے مسائل زیادہ تر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں تھے کہ ان میں کم عمری کی شادی اور بیوگی کی صورت میں دوسری شادی سے ہر صورت روکا جاتا تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسی بچی اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کی وجہ سے اپنے شوہر کی موت کا سبب بنتی ہے۔ اس کا مقدر محض پوجا، فاقہ کشی اور برا سلوک رہ جاتا تھا اور اسے کسی تقریب یا خوشی کے موقع پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ نچلی ذات اور اچھوتوں میں نہ تو کم عمر بچوں کی شادی کی جاتی ہے اور نہ ہی بیواؤں کو دوسری شادی سے روکا جاتا ہے۔

لوسی کیرول (1983)

قانون

تعارف اور حصہ اول، دوم اور پنجم:

ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرِ انتظام علاقوں کی عدالتوں میں چند استثنائی صورتوں سے ہٹ کر یہ قانون رائج ہے کہ ہندو عورت جب ایک بار شادی کر لیتی ہے تو اسے بیوہ ہونے پر دوسری شادی کا حق نہیں رہتا اور ایسی شادی کی قانونی شکل نہیں ہوتی اور اس سے پیدا ہونے والے بچے بھی ناجائز تصور ہوتے ہیں اور انہیں وراثت سے کوئی حصہ نہیں ملتا اور

بہت سے ہندو یہ مانتے ہیں کہ یہ قانون ان کے لیے مشکلات کا سبب ہے اور یہ قانون ان کی روایات کے مطابق تو ہے مگر ان کے مذہب کی اصل روح کے خلاف ہے۔ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ قانون عدالتوں کے ذریعے ایسے لوگوں کو نہ روکے جو اپنی روایات کو ترک کر کے دوسری روایات کے تحت بیواؤں کو دوسری شادی کریں اور

اگر ہندو یہ شکایت کریں تو ان کی مدد کرنا انصاف کا تقاضا ہوگا اور ہندو بیواؤں کو دوسری شادی سے روکنے کے خلاف قانون ہونا چاہیے تاکہ اچھے پروان چڑھ سکین اور عوامی فلاح کا تقاضا بھی پورا ہو۔

اس پر ایسے عمل ہوگا:

1۔ ہندوؤں میں ہونے والی ایسی شادی قانونی اور جائز تصور ہوگی اور اس سے پیدا ہونے والے بچے بھی، کہ جس میں شادی کرنے والی عورت کا پہلا شوہر یا منگیتر مر چکا ہو اور چاہے ہندو قوانین دوسری شادی کی ممانعت بھی کیوں نہ کرتے ہوں۔

2۔ ایسی صورت میں بیوہ کو اپنے پہلے شوہر کے ترکے سے کسی بھی صورت ملنے والی کسی بھی جائیداد یا فائدے کو کسی بھی صورت روکا نہیں جا سکے گا چاہے وہ دوسری شادی ہی کیوں نہ کر لے۔ تاہم اس بیوہ کے انتقال کی صورت میں یہ وراثت اس کے سابقہ شوہر کے پسماندگان اور دیگر وارثین کو مل جائے گی۔

3۔ دوسری شادی کرنے والی بیوہ کو کسی بھی صورت دوسرے شوہر سے ملنے والے ترکے یا کسی اور جائیداد یا نقدی وغیرہ سے محروم نہ کیا جائے گا اور اسے ویسے ہی حصہ ملے گا جیسے یہ اس کی پہلی شادی ہو۔