"ہندو مسلم اتحاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
انگریزی سے اردو ترجمہ |
(کوئی فرق نہیں)
|
نسخہ بمطابق 23:02، 25 مئی 2019ء
ہندو مسلم اتحاد ایک مذہبی سیاسی نظریہ ہے کہ برِصغیر میں دونوں بڑے مذہبی گروہوں یعنی ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشترکہ نصب العین کے لیے کام کریں۔ یہ نظریے کی ترویج کئی بادشاہوں مثلاً اکبر نے بھی کی تھی اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران مہاتما گاندھی اور خان عبدالغفار خان کے علاوہ سیاسی جماعتوں بشمول انڈین نیشنل کانگریس، خدائی خدمتگار اور آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی کی۔
تاریخ
مغل دور کے ہندوستان میں شہنشاہ اکبر نے ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کی اور اپنے دربار میں دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو مقرر کیا۔ اکبر نے دونوں مذاہب کے مذہبی تہواروں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان میں حصہ بھی لیا۔ اس کے علاوہ اس نے کئی نئے تہوار بھی متعارف کرائے کہ ہر مذہب کے پیروکار ان کو مناتے تھے۔
ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر برطانیہ سے لڑائی کی تھی۔ 2007 میں منموہن سنگھ نے سای جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات ‘ہندو مسلم اتحاد کو ظاہر کرتے ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں‘۔
1916 کے لکھنؤ پیکٹ کو ہندو مسلم اتحاد کے لیے بہت اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے کہ اس دور میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔محمد علی جناح نے اپنے ابتدائی سیاسی دور میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کی۔ گوپال کرشنا گوکھلے نے بتایا کہ جناح ‘تمام تر مذہبی تعصبات سے پاک ہیں اور انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بنانا چاہیے‘۔
دیوبند مکتبہ فکر کے مسلم علما جیسا کہ قاری محمد طیب اور کفایت اللہ دہلوی ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے اور متحد ہندوستان کے داعی بھی۔
ہندو مسلم اتحاد کو لاحق خطرات
1857 کی جنگِ آزادی میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر برطانیہ کا سامنا کیا۔ اس بڑھتی ہوئی قومیت پرستی سے خائف ہو کر برطانیہ نے ان مذاہب کے ماننے والوں کو الگ الگ بھڑکانے کی کوشش کی تاکہ ان کی حکومت کو خطرہ نہ ہو۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے پرنسپل تھیوڈور بیک نے سید احمد خان کو کہا کہ انگریز اور مسلمان تو متحد ہو سکتے ہیں مگر ہندو مسلم اتحاد کو کسی طور بھی عقل نہیں مانتی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس کے اغراض و مقاصد سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔
کمپوزٹ نیشنلزم اینڈ اسلام کے مصنف مولانا حسین احمد مدنی جو دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے اور متحد ہندوستان کے داعی تھے، کا خیال تھا کہ برطانوی مسلمانوں کو اس خیال سے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی شناخت سے ہاتھ دھو کر ہندو ثقافت میں شامل ہونا پڑے گا۔اس طرح مسلمان کمزور ہو کر ہندوستان کی آزادی ک جہدوجہد سے دور ہو جائیں گے۔ مدنی کے خیال میں دو قومی نظریے نے برطانوی حکومت کو مضبوط کیا۔
سپریم کورٹ کے جج اور کشمیری بھارتی سیاست دان مرکنڈے کاٹجو نے دی نیشن میں لکھا:
1857 تک ہندوستان میں کسی قسم کا مذہبی مسئلہ نہیں تھا۔ اس سے قبل ہندو اور مسلمانوں میں بہت سارے اختلافات تو تھے جیسا کہ ہندو مندروں کو اور مسلمان مساجد کو جاتے تھے مگر ان میں کوئی دشمنی نہیں تھی۔حقیقتاً ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے، ہندو عید کی تقریبات میں شامل ہوتے تو مسلمان ہولی اور دیوالی ہندوؤں کے ساتھ مناتے تھے۔ مسلمان حکمران جیسا کہ مغل، نوابِ اودھ اور نوابِ مرشد آباد، ٹیپو سلطان وغیرہ سبھی مذہبی طور پر غیر جانبدار تھے۔ وہ رام لیلا کا انتظام کرتے، ہولی، دیوالی وغیرہ میں بھی شامل ہوتے تھے۔ غالب نے اپنےہندو دوست منشی شیو نرائن آرام، ہرگوپال تفتہ وغیرہ کو جس طرح خطوط لکھتے تھے، وہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس دور کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے کتنے قریب تھے۔ 1857 میں جب غدر ہوا تو ہندو اور مسلمان مل کر برطانیہ کے خلاف لڑے۔ اس سے برطانوی حکومت کو اتنا دھچکا لگا کہ انہوں نے غدر کو فرو کرنے کے بعد تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنا لی۔ تمام تر مذہبی فسادات 1857 کے بعد شروع ہوئے جن کو برطانوی حکمرانوں نے ترتیب دیا تھا۔وہ ہندو پنڈت کو بلا کر پیسے دیتے اور مسلمانوں کے خلاف بولنے کا کہتے اور ساتھ ہی مولوی کو پیسے دیتے کہ وہ ہندوؤں کے خلاف بات کرے۔ اس طرح ہماری سیاست میں فرقہ وارنہ زہر گھلتا چلا گیا۔