"شب قدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 20:
اکثر علما کا خیال ہے کہ یہ 27ویں رات ہے۔ [[ابن عباس]] سے مروی ہے کہ رسول اللہ {{درود}} نے فرمایا کہ اس رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں نو دن باقی (اکیسویں) ہوں یا سات دن (تیئسویں) یا پانچ دن باقی (پچیسویں)۔<ref>بخاری (4 / 260)</ref> استنباطات کی بنا پر ابن عباس یہی خیال کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائيسویں رات ہی ہے اور ابن عباس سے یہ بات ثابت ہے۔ اور ان امور میں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے: (تنزل الملائکۃ والروح فیھا) اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں۔ یہ سورۃ القدر کا ستائیسواں کلمہ ہے۔ بعض علمائے کرام نے تو اسے راجح قرار دیا ہے کہ شب قدر ہر سال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، [[یحییٰ بن شرف نووی]] کہتے ہیں کہ اس میں صحیح احاديث کے تعارض کی بنا پر ظاہر، صحیح اور مختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے اور انتقال کے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں۔ <ref>المجموع للنووی 6 / 450</ref>
== علامات ==
لشبشب قدر پہچاننے کی علامات اور نشانیاں یہ تین احادیث صحیح ہيں:
# شب قدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہيں ہوتی۔<ref>صحیح مسلم 762</ref>
# شب قدر معتدل نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی ہے، اس دن صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا یعنی تمازت نہیں ہوتی۔ (مسند ابو داؤد طیالسی)<ref>صحیح ابن خزيمہ 2912</ref>
# سب قدر روشن رات ہوتی ہے نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی اور اس میں کوئی ستارہ نہيں پھینکا جاتا، یعنی شہاب ثاقب نہيں گرتا۔ (مسند احمد بن حنبل)<ref>مجمع الزوائد 3 / 179</ref>
 
== قرآن میں شب قدر ==
قرآن مقدس میں اس کا ذکر خاص انداز میں کیا گیا ہے۔