"شب قدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2:
|holiday_name = شب قدر/لیلۃ القدر
|type = اسلامی
|image =ساحة شريديشریدی - ليلةلیلة القدر.jpg
|imagesize = 240px
|caption = [[داریا]]، [[ملک شام|شام]] میں شریدی چوک شب قدر کے موقع پر سنسان ہے۔ (2013ء)
|official_name = ليلۃلیلۃ القدر
|nickname = شب قدر، عبادت کی رات
|observedby = [[مسلمان|اہل اسلام]]
سطر 16:
}}
 
'''لیلۃ القدر''' یا '''شب قدر''' [[اسلامی تقویم|اسلامی مہینے]] [[رمضان]] کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک [[رات]] جس کے بارے میں [[قرآن کریم]] میں سورہ قدر کے نام سے ایک سورت بھی نازل ہوئی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس حساب سے اس رات کی عبادت 83 سال اور 4 مہینے بنتی ہے۔
== وجہ تسمیہ ==
لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیات اور فضیلتون کی بناء پر یہ قدر والی رات ہے یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہو کر عبادت کرے گا وہ قدر و شان والا ہوگا۔
 
قدر کا معنی تنگی بھی کیا گیا ہے، یعنی اس کی تعیین کا علم خفیہ رکھا گیا ہے۔ [[خلیل بن احمد الفراہیدی]] کا کہتے ہیں کہ لیلۃ القدر کو قدر والی رات اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے، یعنی قدر تنگی کے معنی میں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ”اور جب اللہ تعالی اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس پر اس کے رزق کو تنگ کر دیتا ہے۔“ (الفجر 16) تو یہاں پر قدر کا معنی ہے کہ اس کا رزق تنگ کردیا جاتا ہے۔
 
ایک قول یہ بھی ہے کہ لیلۃ القدر، القدر کے معنی میں ہے یعنی [[د|دال]] پر [[زبر]] ہے جس کا معنی [[تقدیر]] ہے، وہ اس لیے کہ اس رات میں پورے سال کے احکام کی تقدید لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ”اس رات میں ہر حکمت والے کام کی تقسیم ہوتی ہے۔“ اور اس لیے بھی کہ اس رات میں تقادیر لکھی اور بنائی جاتی ہیں۔
 
== تاریخ ==
اکثر علما کا خیال ہے کہ یہ 27ویں رات ہے۔ [[ابن عباس]] سے مروی ہے کہ رسول اللہ {{درود}} نے فرمایا کہ اس رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں نو دن باقی (اکیسویں) ہوں یا سات دن (تیئسویں) یا پانچ دن باقی (پچیسویں/ستائیسویں)۔<ref>بخاری (4 / 260)</ref> استنباطات کی بنا پر ابن عباس یہی خیال کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائيسویںستائیسویں رات ہی ہے اور ابن عباس سے یہ بات ثابت ہے۔ اور ان امور میں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے: (تنزل الملائکۃ والروح فیھا) اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں۔ یہ سورۃ القدر کا ستائیسواں کلمہ ہے۔ بعض علمائے کرام نے تو اسے راجح قرار دیا ہے کہ شب قدر ہر سال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، [[یحییٰ بن شرف نووی]] کہتے ہیں کہ اس میں صحیح احاديثاحادیث کے تعارض کی بنا پر ظاہر، صحیح اور مختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے اور انتقال کے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں۔ <ref>المجموع للنووی 6 / 450</ref>
 
یہ درست نہیں معلوم کہ شب قدر کون سی رات ہے۔ اہل تشیع کے مطابق یہ انیسویں، اکیسویں یا تئیسویں رات ہے اور ستائیسویں رات اور پندرہ شعبان کی رات کے بارے میں بھی شب قدر ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔<ref>کاشانی، منہج الصادقین، 1344ش، ج4، ص274 بہ نقل از افتخاری، «دعا و شب قدر از منظر موسی صدر»، ص17۔</ref> اہل سنت رمضان کی ستائیسویں رات جبکہ اہل تشیع رمضان کی تئیسویں رات<ref>اتفق مشایخنا [فی لیلۃ القدر] علی انہا اللیلۃ الثالثۃ و العشرون من شہر رمضان۔ صدوق، الخصال، 1362ش، ص519۔</ref> پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
 
== علامات ==
شب قدر پہچاننے کی علامات اور نشانیاں یہ تین احادیث صحیح ہيںہیں:
# شب قدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہيںنہیں ہوتی۔<ref>صحیح مسلم 762</ref>
# شب قدر معتدل نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی ہے، اس دن صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا یعنی تمازت نہیں ہوتی۔ (مسند ابو داؤد طیالسی)<ref>صحیح ابن خزيمہخزیمہ 2912</ref>
# سب قدر روشن رات ہوتی ہے نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی اور اس میں کوئی ستارہ نہيںنہیں پھینکا جاتا، یعنی شہاب ثاقب نہيںنہیں گرتا۔ (مسند احمد بن حنبل)<ref>مجمع الزوائد 3 / 179</ref>
 
== قرآن میں شب قدر ==