"شافعی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات : + زمرہ:اہل سنت
اِضافہ مواد
سطر 1:
{{فقہ}}
 
[[شریعت]] اسلامی کی اصطلاح میں [[امام شافعی]] کی [[فقہ]] پر عمل کرنے والے مسلمان شوافع کہلاتے ہیں۔ فقہ شافعی اور فقہ مالکی کے ماننے والوں کی تعداد فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج کل ان کی اکثریت [[ملائیشیا]]، [[انڈونیشیا]]، [[حجاز]]، [[مصر]] و [[شام]] اور مشرقی [[افریقا]] میں ہے۔ فقہ حنفی کی طرح فقہ شافعی بھی کافی وسیع ہے۔
 
== فقہ شافعی کے اصول ==
== پس منظر ==
ابن ادریس شافعی نے اپنی [[الرسالہ|کتاب الرسالہ]] لکھی جو اصول فقہ اور اصول حدیث کی اولین، نفیس اور اساسی کوشش قرار پائی۔ یہ اصول آج تک مسلمہ ہیں اور اصول فقہ میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔<ref>محمد ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 159</ref>
[[اہل سنت|اہلسنت]] والجماعت کے چار ائمہ ہیں:
;استدلال میں اصل حیثیت کس کی؟
# [[امام ابو حنیفہ|ابو حنیفہ]] (م 150 ھ)
امام شافعی نے احکام ومسائل میں استدلال کے چند درجات پر رائے دی ہے جس سے فقہ شافعی میں استدلال کی اصل حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔یہ آراء درج ذیل ہیں:
# [[امام مالک]] (م 189 ھ)
# دین میں اصل حیثیت قرآن و سنت کی ہے اور اگر ان سے استدلال نہ ہو سکے تو پھر قیاس جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کے قوانین محدود ہیں اور امتداد زمانہ کے ساتھ پیش آنے والی صورتیں غیر محدود اس لیے جب کوئی واقعہ پیش آئے تو پہلے قرآن و حدیث میں غور کرنا چاہیے اور صحابہ کے تعامل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اگر مسئلہ سے متعلق کوئی بات مل جائے جو صورت حال کے چند پہلوؤں سے تو یکساں ہو مگر ہو بہو نہ ہو تو قرآن و حدیث کے بیان شدہ امر اور پیش آمدہ واقعہ میں مماثلت پیدا کرنے کے لیے ہمیں یہ حق ہے کہ ہم اس امر کی جستجو کریں کہ قرآن و حدیث کے اس قاعدہ مغیہ کی علت اور وجہ کیا تھی؟ پھر ہم بھی اس علت کی بناء پر قیاس کرنے کے مجاز ہیں۔ قیاس کے متعلق اس دقیق بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے ممتاز محدثین امام شافعی کی اس رائے سے متفق ہو گئے۔<ref>محمد ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 159</ref>
# [[امام شافعی]] (م 204 ھ)
# جب حدیث نبوی، متصل سند کے ساتھ ثابت ہو جائے تو اس پر عمل لازمی ہے۔ اور کوفہ و مدینہ کی روایتوں پر اعتماد بھی اسی بنیاد پر کیا جائے۔ ورنہ نہیں۔
# [[امام احمد بن حنبل]] (م 241 ھ)
# حدیث ہمیشہ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہونی چاہئے اور جب اس میں متعدد معانی کا احتمال ہو توجو معنی ظاہری معنی کے قریب ہوں وہ لیے جائیں گے۔ زیادہ تاویلات نہ کی جائیں۔
 
# صحابہ کا اجماع خبر واحد سے بالا تر ہے اور اجماع صحابہ نہ ہونے پر خبر واحد قابل عمل ہے۔ حدیث خواہ کسی درجہ کی ہو قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔
ان ائمہ کرام نے اپنی خداد داد علمی و فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر اپنے اپنے دور میں حسب ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل [[فقہ]] مرتب کیے، یوں ان ائمہ کے زیر اثر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔
# جب چند احادیث باہم متعارض ہوں تو ان میں یہ غور کرنا چاہیے کہ راوی کیسے ہیں؟ احکام کی ترتیب اور متقدم و متاخر صحابہ کے مقام کا بھی لحاظ ہونا چاہیے۔
* امام اعظم کے مقلدین [[حنفی]] کہلاتے ہیں۔
# جب حدیث مرسل دوسری سند سے مروی نہ ہو تو بجز [[سعید بن مسیب]] کے سبھی ناقابل قبول ہیں۔ دوسری یا تیسری صدی ہجری کی مرسل امام شافعی کے نزدیک قطعی قابل قبول نہیں کیونکہ اس کی سند نہیں ہے۔ ورنہ بغیر سند کے روایات کا ایک سلسلہ چل نکلے گا اور ہر کوئی جو منہ میں آیا کہہ دے گا۔ لقال من شاء ما شاء۔
* امام مالک کے مقلدین [[مالکی]] کہلاتے ہیں۔
# صحیح و متصل حدیث کے مقابلہ میں، حدیث مرسل و موقوف اور منقطع کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔
* امام شافعی کے مقلدین [[شوافع]] کہلاتے ہیں۔
# امام شافعی کے دور میں اقوال صحابہ جمع ہو گئے تھے۔ بعض اقوال صحیح حدیث کے برعکس تھے اس لیے ابن ادریس شافعی نے یہ طے کیا کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں اقوال صحابہ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔
* امام احمد بن حنبل کے مقلدین [[حنبلی]] کہلاتے ہیں۔
# ہر عام حکم میں مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور عام قطعی نہیں ہوتا۔
 
# جلب منفعت سے دفع مضرت اولی ہے۔ یعنی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے نقصان کو دور کرنا زیادہ بہتر ہے۔
== آج کے دور میں ==
# ایک اصل کو دوسرے اصل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہاں اگر اس کی علت دریافت ہو جائے تو فرع کو اصل پر قیاس کرنا چاہیے۔
فقہ شافعی کے ماننے والوں کی تعداد فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج کل ان کی اکثریت [[ملائیشیا]]، [[انڈونیشیا]]، [[حجاز]]، [[مصر]] و [[شام]] اور مشرقی [[افریقا]] میں ہے۔ فقہ حنفی کی طرح فقہ شافعی بھی کافی وسیع ہے۔
# اصل کے لیے کیوں اور کیسے کی بات نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ بات فرع کے لیے کہی جاسکتی ہے کہ کیوں اور کیسے۔
# اجماع وہاں ہوگا جہاں کتاب و سنت خاموش ہوں اور پھر قابل قبول بھی ہوگا ورنہ نہیں۔
# اگر اجماع بھی نہ پائے تو پھر مجتہد، قیاس میں غور و خوض کرے۔<ref>محمد ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 159 – 160</ref>
 
== اہم کتابیں ==