"سید احمد بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 34:
بےروزگاری کی وجہ سے سید احمد کے لاشعور میں  بھی امیر خان کی طرح ریاست قائم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ چونکہ آپ مذہبی عبادات کی سختی سے پابندی کرتے تھے لہذا اس ریاست کا مذہبی تصور ہی آپ کے ذہن میں ابھرا جو جہاد کے ذریعے قائم ہو سکتی تھی۔ انہی دنوں حجاز میں [[وہابی تحریک]] کی عسکری مہمات کی خبریں برصغیر آرہی تھیں۔ اس ددوران ان کی زندگی میں اہم ترین موڑ آیا جو کہ [[شاہ اسماعیل دہلوی]] اور مولوی [[عبد الحی بڈھانوی|عبد الحئی بڈھانوی]] کا اپنے آپ کو ان کی مریدی میں دینا تھا۔ وہ آپ کے اچھوتے خیالات سے متاثر ہوئے تھے۔ لیکن یہ دونوں سید احمد سے ہرلحاظ سے بہتر تھے۔ چنانچہ سید احمد میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خدا کی طرف سے چنے ہوئے اور ایک مشن پر مامور کیے گئے ہیں۔ مذہبی دنیا میں نیم خواندہ کی وجہ سے کوئی مقام نہ ہونے اور بے روزگاری نے اس خیال کو اور ہوا دی۔ نیم خواندہ حضرات میں مذہب یا آئیڈیالوجی کے نام پر اقتدار کے حصول کی نفسیات بہت پیچیدہ ہے۔ یہ لوگ خود راستی کے احساس کا شکار ہو کر غلطیاں کیے جاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں اس کی ایک مثال [[کمبوڈیا]] کے [[پول پاٹ]] اور عراق و شام کے [[ابوبکر البغدادی|ابو بکر بغدادی]] کی ہے۔
 
وہ خود صرف عسکری تجربہ رکھتے تھے لہذا دین کی نئی تشریح اور ان کے موقف کو دینی اصطلاحات میں بیان کرنے کا کام شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنے ذمے لیا۔ ان سالوں میں آپکی سوچ میں وہابی طرز کی تبدیلی کی ابتدا اس خیال سے ہوئی کہ برصغیر میں توحید کا تصور مسخ ہو گیا ہے۔ حجاز کی وہابی تحریک کی طرح ضرورت ہے کہ اسے دوبارہ مسلمانوں میں خالص  اور  اصل شکل میں راسخ کیا جائے اور جن عوامل نے اسلام کو کمزور کر دیا ہے انہیں دور کیا جائے۔ ان میں صوفی اور شیعہ عقائد خصوصیت سے قابلآپکے ذکرنشانے پر تھے۔ نیز آپ یہ سمجھتے تھے ۔کہ جہاد تصوف کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہر مسلمان کیلئے ہر حال میں عسکری جہاد لازم ہے تاکہ آسمانی برکتوں (مال غنیمت) کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ اپنی تحریک کو مسلمان عوام میں روشناس کرانے کی غرض سے آپ   نے  1818ء  اور 1819ء میں دوآبہ کے علاقوں کا دورہ کیا اور غازی آباد، مراد نگر، میرٹھ، سدھانہ، کاندھیلہ، پھولت، مظفر نگر، دیوبند، گنگوہ، نانوتہ، تھانہ بھون، سہارنپور، روھیل، کھنڈ، لکھنؤ اور بریلی گئے<ref name=":1">ڈاکٹر مبارک علی، "'''المیہ تاریخ'''"، حصہ اول، باب 11، ادارہ مطالعہ<sup>ء</sup> تاریخ ، لاہور</ref>۔
 
=== شیعہ و صوفی مخالف مہم ===
سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی [[محرم کی عزاداری|عزاداری]] کو شرک سمجھتے تھے۔ عرب دنیا میں 1802ء میں وہابی لشکر نے کربلا اور نجف پر حملہ کیا اور وہاں ائمہؑ کے مزارات کی تخریب کے ساتھ پانچ ہزار شیعہ مسلمان قتل کیے تھے۔1804ء میں اس لشکر نے مدینہ پر بھی حملہ کیا اور روضۂ رسولؐ کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے متاثر ہو کر 1820ء میں سید احمد بریلوی نے بھی اپنے مریدوں کو عزاداری پر حملے کے لیے اکسانا شروع کیا اور کہا کہ تعزیہ توڑنے کا ثواب بت شکنی جیسا ہے۔ شاہ عبد العزیز اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تھے، ان کے ہاں نہ صرف محرم میں مجلس ہوتی تھی<ref>فتاویٰ عزیزی میں 1238 ہجری یعنی سن 1818ء میں ایک سوال کے جواب میں ایسی مجالس کے اہتمام کا ذکر موجود ہے</ref> بلکہ وہ بی بی فاطمہؑ کی نیاز بھی دیا کرتے اور انہوں نے اپنی کتاب "سر الشہادتین " میں کربلا کی یاد منائے جانے کو خدا کی طرف سے پیدا کردہ اسباب شہرت قرار دیا تھا۔ سید احمد نے ان کے گھر میں نیاز دلانے کے سلسلے کو بھی بند کروا دیا۔ اس سے پہلے محرم میں تعزیہ، اہلبیت کا ذکراذکر وراور نیاز شیعہ و سنی کے لیے مشترک عمل تھا۔سید احمد بریلوی نے سہارن پور میں تعزیے کو آگ لگوا دی۔ اس توہین کی وجہ سے اہل تشیع میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے ان لوگوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس تیاری کی خبر ملنے پر انگریزوں نے سید احمد اور ان کے مریدوں کو سہارن پور سے علاقہ بدر کر دیا۔ سید احمد جب بریلی گئے تو وہاں بھی عزاداری کے خلاف جلسے اور تقریریں کیں جن کے رد عمل میں اہل تشیع نے تبرا کا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔ صفوی دور کی شروع کردہ بدعت ہندوستان میں بھی آنے والی تھی مگر اودھ کے نواب غازی الدین حیدر اور آیت الله سید دلدار علی نقویؒ نے اہل تشیع کو اس حرکت سے باز رکھا۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر فساد پھیلانے کے بعد چار سو عقیدت مندوں کو لے کر سید احمد1821ء میں حج کرنے چلے گئے۔راستے میں بنارس کے مقام پر اہلسنت کے زیر انتظام امام بارگاہوں پر حملہ کیا اور تعزیے جلائے۔ پٹنہ میں بھی یہی کام کیا اور وہاں کے انگریز مجسٹریٹ نے اہل تشیع کے احتجاج کے باوجود اس گروہان کے خلاف کوئی کارروائیئیکارروائی نہ کی<ref name=":2">Barbara Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860-1900", pp. 52 - 58, Princeton university Press, (1982).
 
[[پاکستان میں شیعیت#cite ref-50|↑]]</ref>۔ ان لوگوں نے اپنی دانست میں خدا کی شان بیان کرنے کے لیے رسول الله(ص) کیکے شانبارے میں ایسی تعبیرات استعمال کیں جن کو روایتی مسلمان توہین آمیز باتیںسمجھتے کیں۔تھے۔ اس کام کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد سنی علما نے ان کے افکار کے خلاف رسالے لکھے، جن میں علامہ [[فضل حق خیر آبادی]]، مولانا [[عبدالمجید بدایونی]]، مولانا [[فضل رسول بدایونی]]، مفتی [[صدر الدین آزردہ]]، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا [[ابوالخیر سعید مجددی]] نمایاں تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نے ایک پوری کتاب <nowiki>''تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ''</nowiki>لکھی۔ان علما کے پیروکار بعد میں  امام [[احمد رضا خان]] بریلوی کی نسبت سے بریلوی کہلائے۔ یہ سلسلہ اہلسنت میں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث کی تقسیم کا سبب ہوا۔
 
=== سفر حج اور تحریک مجاہدین ===
1821ء میں انہوں نے اپنے مریدوں کے ساتھ حج  کیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں اس اہم رکن کا احیاء کیا جائے۔ کیوں کہ سمندروں پر یورپی اقوام کے قبضے اور بحری سفر کی مشکلات کی وجہ سے بہت کم ہندوستانی مسلمان حج پر جایا کرتے تھے اور غربت اور بے روزگاری عام تھی۔ ان حالات کے پیش نظر کچھ علما نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ ان حالات میں استطاعت نہ رکھنے والوں پر حج فرض نہیں  ہے۔ اس لیے سید احمد نے باجماعت حج کیا اور وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جس کو عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے، کے اثرات اپنے ساتھ لائے۔ انہی کی سوچ کو اپنی کتب میں ڈھال کر پھیلایا۔ 1823ء  میں حج سے واپسی کے بعد آپ نے ایک بار پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور سات ہزار کے قریب بے روزگار لوگ بیعت کرکے آپ کی تحریک میں شامل ہوئے۔ اس جماعت کو تحریک مجاہدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
 
== تحریک مجاھدین اور سکھوں کے خلاف جہاد ==