"سید احمد بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 45:
 
== تحریک مجاھدین اور سکھوں کے خلاف جہاد ==
سیداحمد نے بے روزگار مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جمع تو کر لی تھی لیکن ان کو کھلانے کے لیے دولت ان کے پاس نہ تھی۔ان کی جماعت کوئی تجارتی کمپنی تو تھی نہیں،مالنہیں، مال غنیمت ہی واحد راہ حل رہ گیا تھا۔ اس مرحلے پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ہندوستان انگریزی قبضے کے بعد دارالحرب ہے یا دارالسلام؟ سید احمد اور شاہ اسماعیل دہلوی کے لیے ہندوستان دارالحرب تھا اور اس لیے مسلمانوں کے لیے جہاد لازمی تھا:۔
 
''موجودہ ہندوستان کا بڑا حصہ دارالحرب بن چکا ہے، اس کا مقابلہ دو سو تین سو برس پہلے کے ہندوستان سے کرو آسمانی برکتوں کا کیا حال تھا؟---آسمانی برکتوں کے سلسلے میں روم اور ترکی سے ہندوستان کا مقابلہ کرکے دیکھ لو''"<ref>صراط مستقیم، صفحہ 49</ref>
 
اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اسلامی ممالک کے بارے میں معلومات محدود تھیں۔ انیسویں صدی میں ترکی ایک زوال پزیر سلطنت تھی۔
 
اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ جہاد کس کے خلاف ہو؟انگریزی عمل داری میں وہ جہاد اس لیے نہیں کرسکتے تھے کہ انگریز سیاسی لحاظ سے بہت طاقت ور ہو چکے تھے اور ان کے خلاف کامیابی کے کوئی امکانات نہیں تھے اور نہ انگریزوں کے خلاف جہاد میںکیلئے انہیں کسی قسم کی مالی امداد مل سکتی تھی۔۔تھی۔ البتہ انگریز ان کی بھرتیوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کر رہے تھے اور اس مختصر جماعت پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے جو انکی "لڑاو اور حکومت کرو" کی پالیسی کیلئے بہت کارآمد ثابت ہو رہی تھی۔ انگریز اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ اکبر کے زمانے سے ہندوستان کے معاشرے کے بارے میں معلومات جمع کر رہے تھے اور کتب لکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عرب ممالک میں وہابی تحریک اور ہندوستان میں شاہ ولی الله کے خاندان کی تحریک انمسلمان معاشروں کو اسی طرح کھوکھلا کرے گی جیسے یورپ میں 1522 ء میں چھڑ کر 1618ء سے 1648 ء تک عروج پر پہنچنے والی فرقہ وارانہ جنگوں نےمغربی معاشروں کو کمزور کیا تھا۔ لہٰذا جس طرح انہوں نے حجاز میں وہابی تحریک کی حمایت کی اسی طرح ان حضرات کو بھی اپنی نظر میں رکھتے ہوئے کھلی چھٹی دی۔ بات واضح تھی، سید احمد جیسے انگریزوں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے البتہ ان کو اپنے جاسوسوں کی مدد سے ورغلا کر اس زمانے میں انگریزوں کے دشمن سکھوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا، نیز انکی مدد سے مسلمانوں میں تفرقہ تو ضرور پیدا ہو ہی رہا تھا۔ سید احمد کو لشکر سازی میں امیر خان کے ساتھ ساتھ رامپور اور گوالیار کے انگریز دوست راجاؤں نے بہت مدد فراہم کی۔ اس طرح ان کو سہولت کار کے طور پر استعمال کر کے انگریز اس ساری تحریک کو کنٹرول کر رہے تھے۔ سید احمد شمالی ہندوستان میں لشکر بنا کر جہاد کے لیے راجستھان، بلوچستان اور افغانستان کا تین ہزار میل لمبا سفر کر کے [[رنجیت سنگھ]] سے لڑنے پختون علاقوں میں پہنچ گئے۔ اس وقت سندھ میں شیعہ [[تالپور خاندان]] انگریزوں سے بر سر پیکار تھا مگر ان مجاہدین نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں:۔
 
"''انگریزوں سے جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں۔ ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں''"<ref>i) مرزا حیرت دہلوی،" حیات طیبہ"، مکتبۃ الاسلام ، ص 260
 
ii) مولانا جعفر تھانیسری، "حیات سید احمد شہید" ‘،ص 171 ، 293
سطر 61:
ادھر افغان حکمران طبقہ بھی ان حضرات سے چوکنا ہو گیا تھا ، ان کی تشویش کو دور کرنے کے لیے سید احمد نے شہزادہ کامران کے نام خط میں لکھا: ۔
 
''"اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا تاکہ اسے کفر و شرک سے پاک کیا جائے ، اس لیے کہ میرا اصلی  مقصد ہندوستان پر جہاد ہے نہ کہ خراسان (افغان سلطنت کا مرکز) میں سکونت اختیار کرنا''"<ref>مولانا ابو الحسن علی ندوی ،"'''سیرت سید احمد شہید'''"، جلد اول، ص 412</ref>۔
 
اس خط سے واضح ہے کہ سید احمد ایک تو یہ چاہتے  تھے کہ افغان حکمران ان کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھ کر سکھوں سے اتحاد نہ کر لیں، دوسرے ان کی توجہ  ہندوستان میں انگریزوں سے لڑنے کی بجائے  وہاں محمد ابن عبد الوہاب کی طرز پر شرک و کفر کے نام پر مسلمانوں کے اندر جھگڑا کرنے پر  تھی، جیسا کہ پختون علاقوں میں آنے سے قبل وہ یہی کام کرتے تھے۔ البتہ اس خط کو بنیاد بنا کر برصغیر کی آزادی کے بعد ان کو  تحریک آزادی کے رہنماؤں میں شامل کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔حالانکہ انہوں نے اگر انگریزوں کے خلاف کچھ کرنا ہوتا تو اسی زمانے میں بنگال میں انگریزوں کے ظالمانہ "بندوبست دوامی" کے قانون کی وجہ سے مسلمان ہاریوں اور کسانوں کا برا حال تھا اور وہ [[فرائضی تحریک]] کا حصہ بن کر انگریزوں اور ہندوؤں کےظلم  کے خلاف کھڑے ہوچکے تھے۔سید احمد نے الٹا ان غرباء کو بھرتی کر کے سکھوں کے خلاف استعمال کیا جس سے انگریزوں کا دوہرا فائدہ ہوا ۔