"سنبھل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 70:
 
سنبھل ایک تاریخی مقام کے طور پر زمانہ قدیم سے ہی مشہور رہا ہے۔ یہ رام گنگا اور گنگا ندی کے درمیان 78035’Nاور 78033’E (28.58,78.53)کورڈینیٹس پر واقع ہے۔ اور تقریباً ۱۶کلومیٹر علاقہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے وجود میں آنے کی مستند وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں ہوسکی لیکن ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق یہ چاروں یُگوں میں موجود تھا۔ سنبھل دور حاضر میں روہیل کھنڈ خطہ کا ایک شہر ہے جسے برسوں تک ضلع مرادآباد کی ایک تحصیل رہنے کے بعد ۲۸؍ستمبر ۲۰۱۱ء کو نئے تشکیل دیئے گئے عجیب و غریب ضلع بھیم نگر کی تحصیل بنا دیا گیا۔ عجیب و غریب ضلع اس معنے میں کہ اس کے ہیڈ کوارٹر کا آج تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکا ہے اور اس کی تشکیل سے سنبھل کا رتبہ پہلے سے گھٹ گیا ہے۔ پہلے یہاں اے۔ ڈی۔ ایم سنبھل اور ایس۔ پی سنبھل کے دفاتر قائم تھے مگر اب اے۔ ڈی۔ ایم سنبھل کی پوسٹ ختم ہو چکی ہے اور ایس۔ پی سنبھل کی جگہ اے۔ ایس۔ پی سنبھل کو تعینات کیا گیا ہے۔ تمام عارضی دفاتر سنبھل سے ۲۲کلومیٹر فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے بہجوئی میں کھولے جا رہے ہیں ۔ محض ۳۷؍ ہزار آبادی پر مشتمل قصبہ بہجوئی اس معنی میں خوش قسمت ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو تواسے تحصیل بنائے جانے کی بھی امید نہیں تھی ظاہر ہے انھیں بن مانگے موتی مل گئے ہیں یعنی ضلع بھیم نگر کا عارضی ہیڈ کوارٹرسنبھل کی جگہ بہجوئی بنا دیا گیا ہے۔
 
==تاریخ==
سنبھل کو دہلی ترک سلطنت کے آخرسے تیموری سلطنت کے آخری دور تک (تقریباً ۴۰۰ برس تک) سرکا رکا درجہ حاصل تھا سرکار سنبھل کا صدر مقام بھی سنبھل میں ہی تھا۔ اُس وقت سنبھل سرکار کو ملک کی بڑی اور مشہور سرکاروں میں سے ایک مانا جاتا تھا۔ شا ہ جہاں کے دور میں رستم خاں دکنی نے سنبھل سے ۳۵ کلومیٹر کے فاصلے پر مرادآباد شہر بسایا تھا۔ رستم خاں دکنی سنبھل سرکار میں گورنر تھا اور وہ ۲۵سال تک سنبھل کا گورنر رہا۔ ۲۰سال تو اس نے سنبھل میں گزارے لیکن آخری پانچ سال اس نے مرادآباد میں رہائش اختیار کی۔ اس دوران سنبھل کی اہمیت بھی کم ہو گئی اور کچھ وقت کے بعد سنبھل سرکار کا صدر مقام سنبھل سے مرادآباد منتقل کر دیا گیا۔ پھر فرخ سیر کے دور میں سنبھل کے سرکار کے درجہ کو ختم کر کے مرادآباد کو ہی سرکار بنا دیا گیا۔
 
 
== مزید دیکھیے ==