"اودھ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 90:
آصف الدولہ کے بعد سعادت علی خاں پر بھی یہی حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ آصف الدولہ کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے وزیر علی نے مسندِ نیابت پر بیٹھنے کا قصد کیا۔ لیکن انگریزوں نے اُن کو ہٹا کر(۲) شجاع الدولہ کے بیٹے سعادت علی خاں کو مسند نشیں کیا۔ یوں سعادت علی خاں کا اقتدار بھی انگریزوں کی بدولت قرار پایا اور خود ایک جوہرِ قابل ہونے کے باوجود انھیں انگریزوں کی مرضی کا پابند ہونا پڑا۔
سعادت علی خاں کے بیٹے غازی الدین حیدر نے نیابت ملنے کے بعد ۱۸۱۸ء میں "ابوالمظفر، معزالدین، شاہِ زمن، غازی الدین حیدر، بادشاہ غازی" کا خطاب اختیار کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اب اودھ صوبے سے ملک بن گیا اور مغلیہ سلطنت سے اس کا برائے نام تعلّق بھی ختم ہو گیا۔ اِس انقلاب کے پسِ پردہ بھی انگریزوں کی حکمت عملی تھی اور یہ اقدام انھیں کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اودھ کا ہر بادشاہ شاہِ شطرنج تھا۔ ملک اودھ میں انگریزوں کی حیثیت شریکِ غالب کی ہو گئی اور اب سیاسی اور ملکی معاملات کا کیا ذکر، بڑی حد تک اپنے نجی معاملات میں بھی اودھ کا بادشاہ ان کی دخل اندازیاں روکنے پر قادر نہ رہا۔
انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر، اودھ کے نظامِ سلطنت میں خود بھی کمزوریاں تھیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے عمّال بر سرِ اقتدار آ جاتے تھے جو اپنے عہدے کے اہل نہیں ہوتے تھے اور محض سفارشوں اور تعلقات کے بل پر منصب حاصل کر کے نظم و نسق کو زیر و زبر کرتے رہتے تھے۔ مثلاً مرزا رجب علی بیگ سرُور نے امجد علی شاہ کے عہدِ سلطنت کی تصویر یوں کھینچی ہے :
 
حکومت ظنّی، نیا طور ہوا۔ اس دورے میں رنڈیوں(۳) کا دور ہوا ․․․ قوّت ممیّزہ شہر سے اُڑ گئی۔ کسی کی ماں نے رسالہ نہ چھوڑا، بیٹا رسالدار ہوا، کسی کی بہن نے پلٹن سے منھ نہ موڑا، سالا سالار ہوا ․․․ غیرت نے منھ پھیر لیا۔ ایک کو دوسرے سے کینہ ہوا ․․․ یہ رسمِ قدیم تھی جس کا جو عہدہ ہوتا وہی پاتا تھا، لیئق کار آزمودہ ڈھونڈھا جاتا تھا ․․․ اب تو یہ خلطِ مبحث ہوا۔ خیّاط کو نیزہ بازوں کا سالار کیا، جمع دیکھ کر بہ صد پریشانی جمعدار کیا۔ جو چھچھوندر(۴) چھوڑنے میں جی چھوڑتے تھے ، چنگاری سمجھ کے جگنو سے منھ موڑتے تھے ، اب جو ایک آدھ پھلجھڑی سی، پٹاخا تیار کر کے محل میں چھوڑی ]یعنی کوئی حسین لڑکی بادشاہ کے حرم میں داخل کی[ آتش خانے کے داروغہ ہوئے ․․․ اگر پیشِ خدمت ہمشیر ہے تو برادرِ عزیز حضرت ]بادشاہ[ کا مشیر ہے۔ خالہ خلوت میں پائین نشین، بھانجا جلوت میں صدرِ امین۔ اُخت سرکار میں، اَخی اخبار میں، اور جس کی اندر جوان لڑکی ہے اس کی باہر سواری بڑے ہُلّڑ کی ہے۔ وگر حضور رس نانی ہے تو کاٹھیاواڑ کی گھوڑی زیرِ ران ہے ، فرنگی محل کی گلیوں میں گرم عنانی ہے ․․․ اور جس کی رشتے دار استانی ہے وہ سب پر سبق لے گیا ․․․ جہان کے فیصلے گھر بیٹھے ہوتے ہیں ․․․ ہر دم بر زبان یہ سخن ہے ، "مالک الملک روسیاہ کی بہن ہے !․․․(۵)
 
آگے بڑھ کے لکھتے ہیں:
 
مملکتِ سلطانی کا جو حال ہے ، بد عملی سے مسافروں کو راہ چلنا محال ہے۔ دن دیے بستیوں میں ڈاکے پڑتے ہیں۔ ملک اجاڑ ہوتا ہے ․․․ چکلہ دار اپنا گھر بھرتے ہیں۔ گاؤں خالی ہو گئے ، جنگل میں زمین دار مرتے ہیں۔ قبولیت میں کچھ لکھا، پٹّے میں کچھ اور ہے ․․․ مزروع زمین بے کار پڑی ہے۔ اوسر بنجر کا ایک بھاؤ ہے ․․․ رعیّت کا گلا ہے اور چھُری کند ہے ، بد معالی تیز اور قلم رو میں اندھا دھند ہے۔(۶)
 
عدالتوں کا حال بھی دیکھ لیجیے :
 
عدالتوں میں ․․․ سب سے زیادہ اندھیر ہے ․․․ داروغہ خود متلاشی ہے کہ کون سا مقدمے والا راشی ہے۔ سِرّاً جہراً رشوت کا پیام ہوتا ہے۔ اس امید پر فرشی سلام ہوتا ہے ․․․ کچہری کا یہ دستورالعمل ہے ، دیتے بنے تو بگڑا مقدمہ سَجل ہے۔(۷)
 
اسی انداز میں حکومت کے مختلف شعبوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ مبالغے اور عبارت آرائی سے قطع نظر، سرُور کے ان پیغامات سے نظمِ حکومت میں بدعنوانیوں کی نوعیت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور اُس دور کی تاریخوں کا غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جن عمّال کا سرور نے کنایتاً ذکر کیا ہے ان میں سے بیش تر کا واقعی وجود تھا اور وہ بڑی حد تک ایسے ہی تھے جیسا سرور نے ان کو پیش کیا ہے۔ غرض اس امر میں زیادہ بحث کی گنجائش نہیں ہے کہ دیسی حکمرانوں اور ان کے اہل کاروں میں خلوصِ عمل کی بہت کمی تھی۔ نااہلوں کو کلیدی عہدے مل جانا، ملکی سیاست میں انہماک اور اپنے کام سے زیادہ دوسرے عہدے داروں کے کاموں میں حریفانہ دل چسپی، دوسروں کو نیچا دکھانے اور خود زیادہ اقتدار حاصل کر لینے کی کوششیں، غدّاری، درباری سازشیں، خالص سیاسی داؤں پیچ __ یہ سب وہ عوامل تھے جو اودھ کی سلطنت کو آہستہ آہستہ فنا کی طرف لیے جا رہے تھے اور آخرکار انھیں تمام بد انتظامیوں کو حجت بنا کر ۱۸۵۶ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے "انّما نحنُ مُصلحون" کے ادّعا کے ساتھ اودھ کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
انتزاعِ سلطنت کے وقت واجد علی شاہ اودھ کے بادشاہ تھے۔ ان کو اپنی رعایا میں نہایت مقبولیت اور محبوبیت حاصل تھی۔ آصف الدولہ کے بعد وہی ایسے حکمراں تھے جن سے عوام دلی محبت کرتے تھے اور ان کو اپنا سمجھتے تھے۔ ان کی شرافت، نرم مزاجی اور سب سے بڑھ کر رعایا دوستی نے ان کو عوامی ہیرو بنا دیا تھا۔ ان کی معزولی پر ایک سنّاٹا سا چھا گیا۔ لکھنؤ سے ان کی روانگی پر شہر میں کہرام مچ گیا۔ لیکن عوام کو نہ تو اپنی قوّت کا احساس تھا نہ ان میں کوئی تنظیم تھی، اس لیے بادشاہ کے ساتھ اس بے انصافی اور انتزاعِ سلطنت پر آنسو تو بہت بہائے گئے لیکن صورتِ حال کو بدلنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی، غزلوں اور لوک گیتوں میں نوحہ خوانی تو بہت کی گئی لیکن انگریزوں کے جبر سے ٹکرانے کے لیے کچھ نہ کہا گیا۔
سلطنتِ اودھ انگریزوں کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح آ گئی۔ انھیں اس پر قابض ہوتے وقت معمولی مزاحمت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا۔ البتہ اس کے دوسرے سال ۱۸۵۷ء میں جب ملک کے دوسرے حصوں میں جنگ اور انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے تو لکھنؤ بھی ان کی لپیٹ میں آ کر ایک بڑے محاذِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ بیلی گارد (ریذیڈنسی)، عالم باغ اور سکندر باغ وغیرہ کے معرکوں میں مقامی سپاہیوں نے شجاعت اور جاں بازی کے کارنامے دکھائے اور دشمن تک سے داد وصول کی۔ لیکن انگریزوں کی منظّم فوجوں اور لاجواب حربی لیاقت کے آگے ، اور کبھی اپنے ہی غدّار ساتھیوں کی بدولت، جیت نہ سکے۔ اس طرح آزادی کی یہ پہلی جدوجہد پورے ہندوستان کی طرح لکھنؤ میں بھی ناکامی پر ختم ہوئی۔