"فرقہ واریت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← چاہیے، ۔، جن ک\1، یا، ان کی؛ تزئینی تبدیلیاں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 13:
باقی احمد شاہے د ا
 
یعنی تمھارے دنیاوی مال و اسباب میں تمہاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ جو بچا کر رکھو گے وہ احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اسی لوٹ مار کے تناظر میں [[میر تقی میر]] نے کہا:-
یعنی تمھارے دنیاوی مال و اسباب میں تمہاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ جو بچا کر رکھو گے وہ احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اس دوران مغل بادشاہ عالمگیر دوم کو اس کے سنی وزیر امداد الملک نے قتل کر دیا اور ایک اور شہزادے شاہجہاں سوم کو مسند شاہی پر بٹھا دیا ۔ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں امداد الملک کو مختار کل بنا یا نجیب الدولہ کودہلی اور اودھ کے درمیان [[روہیل کھنڈ]] میں افغانوں کی حکومت بنا دی۔یہاں سے بھی اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ شاہ ولی الله کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کو دعوت  کا مقصد  سنی امرا  کے مفادات کا تحفظ تھا تاکہ دہلی اور اودھ کے بیچ فاصلہ پیدا کیا جائے۔ مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی کے خلاف اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ کو اتحاد کی دعوت دی لیکن نواب نے  ہم مذہب  احمد شاہ ابدالی سے اتحاد کرنے کو مصلحت کے قریب جانا۔ 1761ء میں اودھ کےشیعہ نواب شجاع الدولہ(صفدر جنگ کے بیٹے)، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو [[پانی پت]] میں شکست دے دی،نجیب الدولہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔1762ء میں [[شاہ ولی اللہ]] انتقال فرما گئے۔1770ء میں نجیب الدولہ کے انتقال کے بعد مرہٹوں نے اس کے بیٹے ضابطہ خان کے قبضے سے دہلی آزاد کرایا اور شاہ عالم ثانی کے حوالے کیا ۔ 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوا اور افغان سلطنت داخلی شورش کا شکار ہو گئی۔ ادھر پنجاب میں سکھوں نے ٹولیوں کی شکل میں افغان لٹیروں کے خلاف مزاحمت شروع کی اور پنجاب میں انارکی پھیل گئی۔ سکھوں کی جو ٹولی جس علاقے میں افغانوں کو بھگانے میں کامیاب ہو جاتی، وہاں اپنا ڈاکو راج قائم کرتی۔ شاہ عالم ثانی نے شیعہ سردار نجف خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ نجف خان نے سکھوں کے مقابلے میں دہلی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 1782ء میں نجف خان کا انتقال ہو گیا۔ 1787ء میں ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نےدہلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا، اس نے شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سوئی مار کر اندھا کر دیا اور مغل شہزادیوں سے زنا باالجبر کرنے کے بعد ننگا کر کے کوڑے لگائے۔ کئی خوبصورت مغل شہزادیاں قید میں بھوکی رکھ کر ماری گئیں اور شہزادے اور ان کے بچے بری طرح پیٹے گئے<ref>خیر الدین محمد الہ آبادی،'''عبرت نامہ'''، 30۔88</ref>۔ مرہٹے دوبارہ شاہ عالم ثانی کی کمک کو پہنچے اور دو سال بعد دہلی دوبارہ شاہ عالم کے قبضے میں چلا گیا، غلام قادر روہیلہ کی آنکھیں بھی نکالی گئیں اور اس کو اذیت ناک طریقے سے مارا گیا ۔ احمد شاہ ابدالی کی بدولت  پنجاب میں قانون اور ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا۔ پنجاب کو سکھ کا سانس تب نصیب ہوا جب رنجیت سنگھ نے پنجاب کو ایک ریاست کے نیچے منظم کیا اور سکھ سلطنت  (1799ء – 1849ء ) قائم کی۔ میسور کے نواب حیدر علی اور ان کےبیٹے فتح علی ٹیپو  بھی  دہلی کی طرف سے  کسی قسم کے حمایتی  فتوے سے محروم رہے، اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے [[ریاست میسور]] میں [[ایران کے شہر]] شیراز سے شیعہ علما اور تاجروں کو آ کر شیعیت متعارف کروانے کا موقع دیا؟  سندھ کے شیعہ تالپور میر بھی انگریزوں کے خلاف اکیلے لڑے۔شاہ ولی الله کے بعد آنے والے دور میں شیعہ مخالف تشدد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر دور پچھلے دور سے بڑھ کر تھا۔
 
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
 
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
 
یعنی تمھارے دنیاوی مال و اسباب میں تمہاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ جو بچا کر رکھو گے وہ احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اس دوران مغل بادشاہ عالمگیر دوم کو اس کے سنی وزیر امداد الملک نے قتل کر دیا اور ایک اور شہزادے شاہجہاں سوم کو مسند شاہی پر بٹھا دیا ۔ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں امداد الملک کو مختار کل بنا یا نجیب الدولہ کودہلی اور اودھ کے درمیان [[روہیل کھنڈ]] میں افغانوں کی حکومت بنا دی۔یہاں سے بھی اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ شاہ ولی الله کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کو دعوت  کا مقصد  سنی امرا  کے مفادات کا تحفظ تھا تاکہ دہلی اور اودھ کے بیچ فاصلہ پیدا کیا جائے۔ مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی کے خلاف اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ کو اتحاد کی دعوت دی لیکن نواب نے  ہم مذہب  احمد شاہ ابدالی سے اتحاد کرنے کو مصلحت کے قریب جانا۔ 1761ء میں اودھ کےشیعہ نواب شجاع الدولہ(صفدر جنگ کے بیٹے)، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو [[پانی پت]] میں شکست دے دی،نجیب الدولہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔1762ء میں [[شاہ ولی اللہ]] انتقال فرما گئے۔1770ء میں نجیب الدولہ کے انتقال کے بعد مرہٹوں نے اس کے بیٹے ضابطہ خان کے قبضے سے دہلی آزاد کرایا اور شاہ عالم ثانی کے حوالے کیا ۔ 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوا اور افغان سلطنت داخلی شورش کا شکار ہو گئی۔ ادھر پنجاب میں سکھوں نے ٹولیوں کی شکل میں افغان لٹیروں کے خلاف مزاحمت شروع کی اور پنجاب میں انارکی پھیل گئی۔ سکھوں کی جو ٹولی جس علاقے میں افغانوں کو بھگانے میں کامیاب ہو جاتی، وہاں اپنا ڈاکو راج قائم کرتی۔ شاہ عالم ثانی نے شیعہ سردار نجف خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ نجف خان نے سکھوں کے مقابلے میں دہلی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 1782ء میں نجف خان کا انتقال ہو گیا۔ 1787ء میں ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نےدہلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا، اس نے شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سوئی مار کر اندھا کر دیا اور مغل شہزادیوں سے زنا باالجبر کرنے کے بعد ننگا کر کے کوڑے لگائے۔ کئی خوبصورت مغل شہزادیاں قید میں بھوکی رکھ کر ماری گئیں اور شہزادے اور ان کے بچے بری طرح پیٹے گئے<ref>خیر الدین محمد الہ آبادی،'''عبرت نامہ'''، 30۔88</ref>۔ مرہٹے دوبارہ شاہ عالم ثانی کی کمک کو پہنچے اور دو سال بعد دہلی دوبارہ شاہ عالم کے قبضے میں چلا گیا، غلام قادر روہیلہ کی آنکھیں بھی نکالی گئیں اور اس کو اذیت ناک طریقے سے مارا گیا ۔ احمد شاہ ابدالی کی بدولت  پنجاب میں قانون اور ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا۔ پنجاب کو سکھ کا سانس تب نصیب ہوا جب رنجیت سنگھ نے پنجاب کو ایک ریاست کے نیچے منظم کیا اور سکھ سلطنت  (1799ء – 1849ء ) قائم کی۔ میسور کے نواب حیدر علی اور ان کےبیٹے فتح علی ٹیپو  بھی  دہلی کی طرف سے  کسی قسم کے حمایتی  فتوے سے محروم رہے، اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے [[ریاست میسور]] میں [[ایران کے شہر]] شیراز سے شیعہ علما اور تاجروں کو آ کر شیعیت متعارف کروانے کا موقع دیا؟  سندھ کے شیعہ تالپور میر بھی انگریزوں کے خلاف اکیلے لڑے۔شاہ ولی الله کے بعد آنے والے دور میں شیعہ مخالف تشدد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر دور پچھلے دور سے بڑھ کر تھا۔
 
=== شاہ عبد العزیز اور تحفہ اثنا عشریہ ===