"بھکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
ضروری معلومات شامل کی گئیں۔
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 23:
 
'''بھکر''' (اردو: بھکر، سرائیکی:بکھر) '''ضلع بھکر'''، [[پنجاب، پاکستان]] کا بنیادی شہر ہے۔ یہ [[دریائے سندھ]] کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ سن 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع بھکر کی کل آبادی ساڑھے سولہ لاکھ نفوس سے کچھ زیادہ ہے۔ بھکر کو ضلع درجہ 1981ء میں دیا گیا۔
[[ضلع بھکر]] پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کا مرکزی شہر بھکر ہے۔ مشہور شہروں میں بھکر, ّّْْْٗٗمنکیرہ اور [[دریا خان|درِیا خان]] شامل ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ صحرائے تھل اور ساتھ ہی ساتھ صوبہ پنجاب کی بھی مغربی اختتامی پٹی پر واقع ہے جہاں سے دریائے سندھ کا ڈیلٹا شروع ہو جاتا ہے۔ سن 1980 تک دریائے سندھ کا ایک قابلِ ذکر ذیلی دریا ایک چھوٹی شاخ کی صورت میں بھکر شہر کے عین بغل میں بہتا تھا۔ اس دریا کی موجودگی اس صحرائی شہر کے باسیوں کے لیئے قدرت کا حسین اور شاندار تحفہ تھا۔ اسی دریا کے پانیوں نے جہاں سندھ کے ڈیلٹا میں رہنے والے یہاں کے باسیوں کو خوشحالی دی وہیں یہ دریا صدیوں دریائے سندھ کی ھیبت و وسعت کا ترجمان بھی رہا ۔ بھکر شہر سمیت صحرائے تھل کو ہزاروں سال سینچنے والا یہ خوبصورت دریا، جس کا اپنا منفرد ایکو سسٹم تھا اور یہ دریا صحرا کے دامن میں بہنے والے دنیا کے محض چند دریاؤں میں سے ایک تھاسنتھا۔ سن اُنیساسو تراسی میں بننے والے ایک جدید پُل سے اِس دریا کی بربادیوں کی کہانی شروع ہوئی، اس دریا کو ڈیرہ اسماعیل خان اور بھکر کے درمیان بننے والے جدید پل کی نظر کر دیا گیا۔ افسوس کہ اس وقت کسی بھی شخص یا طبقے نے اس دریا کو ختم کرنے کی مخالفت یا کوشش نہیں کی ۔ افسوس کہ دریا کا راستہ اس نئے پل اور اسکے حفاظتی پشتے و حفاظتی بند بننےبنانے کےکی خاطر بعد مکمل طور پخشجشکرپر خشک کر دیا گیا لیکن دریا کا راستہ صدیوں تک بہتے رہنے کے باعث چونکہ آج بھی موجود ہے لہذا اگر بھکر کے باسی کوشش کریں تو اس دریا کو ایک مرتبہ پھر سے رواں دواں کیا جاسکتا ہے۔ یہ دریا جسے کل کے لیئے محفوظ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ آج کی نسلیں اس دریا کی خوبصورتی اور رعنائی سے مستفید ہوتیں اسےاس کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
 
اس چھوٹے سے دریا کے آثار کو عبور کرتے ہی قدیم بھکر شہر کے آثار آج بھی کسی نہ کسی شکل میں نظر آتے ہیں، پرانا شہر جو دریائے سندھ کے ڈیلٹے میں شامل تھا چونکہ ہر سال سیلاب کی زد میں رہتا تھا شاید اسی لیے اس زمانے کے باسیوں نے شہر کو دریا کے مشرقی کنارے پر نئے سرے سے آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں یہ کنارہ جو ریت کے اونچے ٹیلوں پر مشتعمل تھا اور ہر طرح کے سیلاب سے بھی محفوظ تھا ۔ بھکر کی زیادہ ترآبادیتر آبادی اجرتی مزدوری اور زراعت سے منسلک رہی ہے۔ معاشی اعتبار سے بھکر ایک پسماندہ ضلع تصور کیا جاتا ہےتھا جس کی بڑی وجوہات مرکز سے دوری، کمزور مواصلاتی نظام، پیشہ ورانہ [[افرادی قوت]] کا فقدان اور سب سے بڑھ کر نااہل اور خود غرض سیاسی قیادت رہی ہے جو جب بھی اسمبلیوں میں پہنچے انہوں نے صرف اپنی ترقی اور خوشحالی کہکیلئے کوششیں کیں،کیں ساتھ میں یہاں کی سیاسی اشرافیہ کی ایک تاریخ یہ بھی رہی کہ یہ لوگ ہمیشہ برادری کی بنیادوں پر الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور جیت کر حکمران پارٹی کے ساتھ شامل ہوتے رہے۔ ان کیکا واحد سیاسی نظریہ "جیہڑا جِتے اودھے نال" یعنی جو جیتے اس کے ساتھ شامل ہونا ہی رہا ۔ کسی بھی ممبر پارلیمنٹ نے اس شہر میں کسی بڑی صنعت یا حرفت کو روشناس کروانے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔کی اور اپنے خاندان و برادری کو سینچتے رہے۔ آج بھکر سے منتخب ہونے والے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں میں بڑے بڑے گھروں کے مالک بن گئے ہیں لیکن ان کے انتخابی علاقوں کے عوام اپنے ان نمائندوں سے کوئی فیض حاصل نہ کر سکے۔

لہذاٰ سوائے عوام کو درجہ چہارم و پنجم کی نچلے درجے کی سرکاری نوکریوں کے کبھی کوئی مناسب حصہ نہ مل سکا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ آخر عوام نے فیصلہ کیا کہ ان سیاسی گھرانوں کے در پر نوکریوں کی بھیک مانگنے کی بجائے اپنے بچوں کو تعلیم دی جائے اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنی دنیا کو آپ ہی بسایا جائے۔ بھکر میں قیام پاکستان کے وقت صرف ایک ہائی اسکول تھا جو کہ انگریزی حکومت کے طفیل بنا تھا۔ پھر جب سن اسی کی دہائی میں یہ شہر ضلع بنا اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان بھکر پُل کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسبھکر شہر کی قسمت جاگ اٹھی۔ خاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان کے تعلیمی ادارے بشمول یہاں قائم گومل یونیورسٹی بھکر کے، بھکر کے باسیوں کے لیئے ایک نعمت ثابت ہوئی۔ اب تک بھکر کے ہزاروں طلباو طالبات ڈیرہ کے تعلیمی اداروں بشمول اس یونیورسٹی سےکے، علم و شعور کی دولت حاصل کر چکے ہیں اور اب آگے کی نسلوں میں یہی دولت بہممنتقل پہنچاکر رہے ہیں۔
 
ماضی میں تعلیم کے حصول میں مشکلات بھی غربت کی ایک بڑی وجہ تھی لیکن اب آج بھکر کے باسی اپنے بچوں کو بہت شوق سے اسکولوں میں بھیج رہے ہیں اور یہاں پڑھنے پڑھانے کا عمل حیرت انگیز تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ یہاں سے لوگ مزدوری اور روز گار کی خاطر پاکستان اور بیرون پاکستان تیزی منتقل ہوتے رہے ہیں جس سے نئی سوچ اور آگے بڑھنے کا شوق دو چند ہوا ہے۔
سطر 31 ⟵ 33:
آج آپ اگر پاکستان کے کسی بھی پروفیشنل تعلیمی ادارے میں جاکر معلوم کریں تو یقیناً آپ کو بہت سے طالب علم مل جائیں گے جن کا تعلق ضلع بھکر سے ہوگا۔ انجنئیرنگ، میڈیکل، قانون دانی، کمپیوٹر انجینئرنگ، زراعت، اٹامک انرجی کمیشن، صحافت غرض ہر ادارے میں بھکر ضلع میں رہنے والے طالبعلم اپنی الگ پہچان اور میٹھی سرائیکی زبان کے ساتھ آپ کو ضرور ملیں گے۔
 
ذرائع آمد و رفت جو کبھی بھکر کے باسیوں کے لیئے عنقا تھے لیکن آج کے بھکر کو تیزی سے نئے راستے پورے پاکستان کے ساتھ جوڑنے جا رہے ہیں۔ ا یکایک سو چالیس کلومیڑ طویل بھکر جھنگ روڈ جو کبھی دس گھنٹوں میں بھی ناقابلِ عبور تھا، آج اس سڑک پر آپ ایک سو بیس کلومیٹر کی رفتار سے چلتے ہوئے محض ایک گھنٹہ تیس منٹ میں جھنگ سے بھی آگے گوجرہ سے گزرنے والی اسلام آباد کراچی موٹر وے کو جا ملتے ہیں، جہاں سے آگے لاہور کا سفر صرف تین گھنٹے کا رہ جاتا ہے۔ ایسے ہےہی ملتان اب بھکر سے تین گھنٹے کی مسافت پر رہ گیا ہے۔ ایسے ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں سے ہو کر گزرنے والے سی پیک کا نیا روٹ اب بھکر کو کراچی و کوئیٹہ سے مزید قریب کرنے والاہے۔ یہ قربت اہل بھکر کے لیئے نئے وسیلے اور نئی راہیں کھول دیے گی۔
 
 
سطر 40 ⟵ 42:
بھکر کی مشہور فصل میں چنا شامل ہے جو صحرائے تھل میں کاشت کیا جاتا ہے، چنا بنیادی طور پر بارانی علاقوں کی فصل ہے جو ستمبر اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے اور پھر مارچ کے مہینے میں گندم سے زرا پہلے کاٹ لی جاتی ہے، پھر اگلے چھ ماہ تک تھل کے ریتلے ٹیلے کسی بھی فصل سے محروم رھتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیہوں گنا، گوارا کا شمار اہم فصلوں کے طور پر ہوتا ہے۔ سرگودھا سے ہجرت کر کے آنے والے پنجابی آبادکاروں نے بھکر میں بھی کینو اور مالٹے کے باغات لگائے اور اب بھکر کے ریگستان میں آپ کینو مالٹے اور گریپ فروٹ کے باغات کثیر تعداد میں دیکھنے کو ملیں گے۔
ذرائع مواصلات اور بجلی کی آمد کے بعد اب محنتی کسانوں نے بجلی سے کام کرنے والے چھوٹے واٹر پمپ لگانے سیکھ لیے ہیں اس لیے اب اگر آج آپ صحرائے تھل سے گزریں تو آپ کو ہریالی کے نخلستان بھی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو یہاں کے محنت کش لوگوں کی جانفشانی کا ایک بین ثبوت ہیں۔
صنعتی اعتبار سے بھکر میں پاکستان بننے کے فوری بعد تھل دیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی تھی جس کے تحت یہاں پبلک سیکٹر میں ایک ٹیکسٹائل مل اور ایک شوگر مل لگائی گئی تھیں ٹیکسٹائل مل تو چار دہایوں بعد سن 1998 میں یہاں سے ختم کر دی گئی۔ آج بھی مل کالونی کی شکل میں اس مل کی باقیات آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ فیکٹو شوگر ملز آج بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹی صنعتیں جیسے دال مل، ایک دو آٹا مل موجود ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے منکیرہ کے قریب قائم ہونے والا چپ بورڈ کا کارخانہ یہاں کے مکینوں کے لیئے ایک نیا اضافہ ہے۔ یہاں اس کارخانے میں بننے والے بورڈ کےلئے صحرائے تھل میں کثیر تعداد میں پایا جانے والا درخت استعمال کیا جارہا ہے۔ اس درخت کی کاشت سے نہ صرف تھل سر سبز ہوتا جا رہا ہے بلکہ یہاں کے باسیوں کو اچھا منافع بھی مل رہا ہے۔
 
تاریخی اعتبار سے بھکر ایک پرانا شہر ہے۔ اس کی تاریخ کے بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں۔ ایک [[مکتب فکر]] کا کہنا ہے کہ بھکر کا پرانا نام سکھر تھا جو بعد میں بھکر پڑ گیا۔ بعض کے مطابق اس کا نام ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک بلوچ سردار کے نام پر رکھا گیا۔ یہاں [[احمد شاہ ابدالی]] نے بھی یہاں پڑاﺅ کیا۔
سطر 50 ⟵ 52:
1981ءمیں اسے میانوالی سے الگ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
 
یہاں کی مشہور برادریوں میں عباسی، آنگرہ، انصاری، آرائیں، اعوان، بلوچ، بھٹی، چدھڑ، چھپ، چھڈو، چوہدری، کمبوہ، ڈھنڈھلا، گورچہ، کھوکھر، لودھی، قریشی، رانا،سید، نیازی اور سیال اور آخر میں بھڈوال شامل ہیں۔ مشہور شخصیات میں قاریاصغر وقارخان احمداورنوانی نعیممرحوم اللہاور قاری وقار احمد شاہانی ہیں۔ اس ضلع کے مشہور سیاسی خاندانخاندانوادے شاہانی،ڈھنڈلاجنہوں نے اس علاقے کے لیئے کبھی کچھ نہیں کیا ان میں شاہانی، ڈھانڈلا اور خان خیل شامل ہیں۔
 
اس ضلع میں قومی اسمبلی کے دوحلقے اورصوبائی اسمبلی کے چار حلقے شامل ہیں۔ اس کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں این اے73 اور این اے74 ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پی پی47،پی پی48،پی پی49 اورپی پی50 شامل ہیں۔
 
اس ضلع کے ووٹرز کی تعداد 711924ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد398581 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 313343ہے۔ ضلع بھکر کے پولنگ سٹے شنوںسٹیشنوں کی تعداد 617ہے۔ اس ضلع55پولنگ سے ٹشنوں کو انتہائی حساس قرار دے دیا گیا ہے۔
 
ماضی میں یہاں سے سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، چوہدری شجاعت حسین،ملکحسین، ملک غلام سرور، عبد المجید خان خیل،علیخیل، اصغر،محمدعلی اصغر، محمد ثناءاللہ خان مستی خیل،محمدخیل، محمد طارق خان نیازی،حفیظنیازی، حفیظ اللہ خان ایڈوکیٹ،محمدایڈوکیٹ، محمد افضل خان ڈھنڈلا،رشیدڈھانڈلا، رشید اکبر خان،مریدخان، مرید حسین شاہ،مولاناشاہ، مولانا محمد سفی اللہ،عامراللہ، عامر محمد خان،محمدخان، محمد ارشد فاقر،سعیدفاقر، سعید اکبر خان،ملکخان، ملک عادل حسین،مریدحسین، مرید حسین شاہ و دیگر نے انتخابات میں حصہ لیا۔لیتے رہے۔
 
== انتظام ==