"بھکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ضروری معلومات شامل کی گئیں۔
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 39:
 
1998ءکی [[مردم شماری]] کے مطابق اس کی آبادی کا تخمینہ 10,51,456 تھا۔ ضلع بھکر میں عمومی طور پر سرائیکی (اکثریتی زبان)، اردو، پنجابی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 8153 [[مربع کلومیٹر]] ہے۔ [[سطح سمندر]] سے اوسط بلندی 159 میٹر ہے۔ اسے بنیادی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیل بھکر،تحصیل دریا خان،تحصیل کلورکوٹ اورتحصیل منکیرہ اس کی تحصیلیں ہیں۔ یہاں زیادہ تر سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے 56.6 فیصد کوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ تعلیم کے لیے یہاں سرکاری اور پرائیویٹ سکول وکالج موجود ہیں۔ سن 2012 میں یونیورسٹی آف سرگودھا نے بھکر میں اپنا سب کیمپس قائم کیا۔ یہ بھکر کی تاریخ میں پہلا پوسٹ گریجویٹ ادارہ تھا۔ بھکر کا شہری اور دیہاتی طبقے جو اپنی آئندہ نسلوں کو [[اعلیٰ تعلیم]] سے روشناس کروانے کے خواہش مند ہیں ان کے لیے یہ ایک بہت قیمتی تحفے کی مانند ہے۔ بھکر کے شہری علاقوں میں شرح خواندگی 55.13 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 30.07 فیصد ہے اور عوامی شعور میں مسلسل اضافے کے باعث شرح خواندگی میں مسلسل افافہ ہو رہا ہے
۔ صحت کے حوالے سے ضلع بھکر میں ضلعی ھیڈکوارٹر ہسپتال اور دیگر نجی صحت کے مراکز موجود ہیں۔ بھکر شہر کی ایک وجہ شہرت” کرنہ تیل“ بھی تھی لیکن معاشرتی روایات کی تبدیلی کے باعث اب یہ تیل کم ہی شہرت رکھتا ہے لیکن آج سے چالیس یا پچاس سال پہلے جب لوگوں کا سر پر تیل لگانا ان کی ثقافت اور روزانہ کی عادات میں شامل تھا تب یہ تیل بہت مشہور تھا اور سارے ھندوستان میں بیچا جاتا تھا۔ یہ بنیادی طور پر سرسوں کا تیل تھا جس کو ” کرنہ“ نامی پھول کی خشک پتیوں کے ساتھ آگ پر پکایا جاتا تھا اس طرح سرسوں کے تیل میں اس پھول کی خوشبو رچ بس جاتی تھی اور شوقین لوگ اس تیل کو سر پر لگانا یا اس تیل سے مالش کرنا یا کروانا پسند کرتے تھے۔ کبھی یہ تیل مشرقی وسطیٰ میں برآمد بھی کیا جاتاشایدجاتا تھا، شاید آج بھی اس تیل کے چند شوقین صحرائے تھل میں مل جائیں۔
 
بھکر کی مشہور فصلاجناس میں چنا شاملاہم ہے جو کہ صحرائے تھل میں کاشت کیا جاتا ہے، چنا بنیادی طور پر بارانی علاقوں کی فصل ہے جو ستمبر اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے اور پھر مارچ کے مہینے میں گندم سے زرا پہلے کاٹ لی جاتی ہے، پھر اگلے چھ ماہ تک تھل کے ریتلے ٹیلے کسی بھی فصل سے محروم رھتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیہوں گنا، گوارا کا شمار اہم فصلوں کے طور پر ہوتا ہے۔ سرگودھا سےیہاں ہجرتمنکیرہ کرمیں کاشت ہونے والا خربوزہ اپنی خوشبو اور مٹھاس کے آنےلیئے والےپاکستان پنجابیبھر آبادکاروںمیں نےشہرت بھکررکھتا ہے ۔ آپ کو گرمیوں میں بھیاکثر کینوسڑک اورپر پھیری والے مالٹےمنکیرہ کے باغاتخربوزے لگائےکی اورسدا ابلگاتے بھکرملیں کےگے ریگستاناب میںخربوزہ آپچاہے کینوکہیں مالٹےکا اوربھی گریپہو فروٹمنکیرہ کے باغاتنام کثیرپر تعدادضرور میں دیکھنےخریدار کو ملیںدعوت شوق دیتا ہے۔ گے۔
ذرائع مواصلات اور بجلی کی آمد کے بعد اب محنتی کسانوں نے بجلی سے کام کرنے والے چھوٹے واٹر پمپ لگانے سیکھ لیے ہیں اس لیے اب اگر آج آپ صحرائے تھل سے گزریں تو آپ کو ہریالی کے نخلستان بھی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو یہاں کے محنت کش لوگوں کی جانفشانی کا ایک بین ثبوت ہیں۔
 
صنعتی اعتبار سے بھکر میں پاکستان بننے کے فوری بعد تھل دیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی تھی جس کے تحت یہاں پبلک سیکٹر میں ایک ٹیکسٹائل مل اور ایک شوگر مل لگائی گئی تھیں ٹیکسٹائل مل تو چار دہایوں بعد سن 1998 میں یہاں سے ختم کر دی گئی۔ آج بھی مل کالونی کی شکل میں اس مل کی باقیات آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ فیکٹو شوگر ملز آج بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹی صنعتیں جیسے دال مل، ایک دو آٹا مل موجود ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے منکیرہ کے قریب قائم ہونے والا چپ بورڈ کا کارخانہ یہاں کے مکینوں کے لیئے ایک نیا اضافہ ہے۔ یہاں اس کارخانے میں بننے والے بورڈ کےلئے صحرائے تھل میں کثیر تعداد میں پایا جانے والا درخت استعمال کیا جارہا ہے۔ اس درخت کی کاشت سے نہ صرف تھل سر سبز ہوتا جا رہا ہے بلکہ یہاں کے باسیوں کو اچھا منافع بھی مل رہا ہے۔
سرگودھا سے ہجرت کر کے آنے والے پنجابی آبادکاروں نے بھکر میں بھی کینو اور مالٹے کے باغات لگائے اور اب بھکر کے ریگستان میں آپ کو کینو مالٹے اور گریپ فروٹ کے باغات کثیر تعداد میں دیکھنے کو ملیں گے۔
 
ذرائع مواصلات اور بجلی کے بعد شمسی پینلز کی آمد کےنے بعدتو تھل کو سرسبز بنانے میں درجہِ کمال حاصل کر لیا ہے ۔ اب محنتی کسانوں نے بجلی اور شمسی بجلی سے کام کرنے والے چھوٹے واٹر پمپ لگانے سیکھ لیے ہیں اس لیے اب اگر آج آپ صحرائے تھل سے گزریں تو آپ کو ہریالی کے نخلستان بھیبہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو یہاں کے محنت کش لوگوں کی جانفشانی کا ایک بین ثبوت ہیں۔
صنعتی اعتبار سے بھکر میں پاکستان بننے کے فوری بعد تھل دیولپمنٹ اتھارٹی یعنی TDA قائم کی گئی تھی جس کے تحت یہاں پبلک سیکٹر میں ایک ٹیکسٹائل مل اور ایک شوگر مل لگائی گئی تھیں ٹیکسٹائل مل تو چار دہایوں بعد سن 1998 میں یہاں سے ختم کر دی گئی۔ آج بھی مل کالونی کی شکل میں اس مل کی باقیات آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ فیکٹو شوگر ملز آج بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹی صنعتیں جیسے دال مل، ایک دو آٹا مل موجود ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے منکیرہ کے قریب قائم ہونے والا چپ بورڈ کا کارخانہ یہاں کے مکینوں کے لیئے ایک نیا اضافہ ہے۔ یہاں اس کارخانے میں بننے والے بورڈ کےلئے صحرائے تھل میں کثیر تعداد میں پایا جانے والا درخت جسے کھگل کہتے ہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس درخت کی کاشت سے نہ صرف تھل سر سبز ہوتا جا رہا ہے بلکہ یہاں کے باسیوں کو اچھا منافع بھی مل رہا ہے۔
 
تاریخی اعتبار سے بھکر ایک پرانا شہر ہے۔ اس کی تاریخ کے بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں۔ ایک [[مکتب فکر]] کا کہنا ہے کہ بھکر کا پرانا نام سکھر تھا جو بعد میں بھکر پڑ گیا۔ بعض کے مطابق اس کا نام ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک بلوچ سردار کے نام پر رکھا گیا۔ یہاں [[احمد شاہ ابدالی]] نے بھی یہاں پڑاﺅ کیا۔