"منیتہ الممارسین فی اجوبتہ الشیخ یاسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 127:
 
جبکہ اخباری کوئی شرط نہیں لگاتے ہیں مگر صرف اتنی قابلیت کہ [[عربی]] پڑھنا آتی ہو. اور اس میں بھی صرف اس قدر کافی ہے کہ [[صرف]] و [[نحو]] کے بعض مسائل کا علم ہو. جبکہ بعض اخباریوں نے تو صرف و نحو جاننے کی بھی شرط مقرر نہیں کی ہے. البتہ ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ مناسب حد تک عربی گرائمر پر عبور حاصل ہونا چاہیے تاکہ [[اہل بیت]] کی اصطلاحات کو سمجھا جا سکے. اوراسی طرح اخباریوں کی طرف سے عربی پڑھ سکنے کی حد تک کی قابلیت کے علاوہ کچھ بھی شرط نہیں رکھی گئی ہے.<ref>منیتہ الممارسین فی اجوبتہ الشیخ یاسین</ref>
 
'''نکتہ نمبر 11'''
 
مجتہدین جب اخبار میں تعارض پاتے ہیں تو اپنی ذاتی رائے اور افکار کو ترجیح دیتے ہیں.
 
جبکہ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] اس کو جائز نہیں سمجھتے ہیں، مگر یہ کہ ترجیحات کے سلسلے میں خود [[چودہ معصوم|معصوم]] سے کچھ منصوص نہ ہو. جیسا کہ مقبول روایت موجود ہے جو [[عمر بن حنظلہ]] سے مروی ہے اور اس جیسی دیگر اخبار ہیں، یا ایسا مقام آ جائے جہاں ضرورت کی بنا پر ترجیح محسوس کی جائے.
 
یعنی جب کوئی ایسی روایت آئے جو احادیث صحیحہ کے مخالف ہو اور ان میں ظاہری طور پر تطبیق نہ ہو رہی ہو، یا حتی خود منصوص ترجیحات سے بھی مسلہ حل نہ ہو رہا اور آخری صورت یہی باقی رہ جائے کہ ایسی روایت کی تاویل کی جائے تو جائز ہے کہ ترجیح کو اخبار میں رہتے ہوئے اخذ کیا جائے. اور اس کے علاوہ صورتحال ہو تو پھر البتہ اس خبر کو رد نہ کیا جائے مگر یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اور ان پر عمل پر متواتر عمل کے ثبوت کی وجہ سے اس پر عمل بھی نہ کیا جائے کیونکہ ایسے عمل کی نہی بھی خود اخبار میں ہی وارد ہوئی ہے کہ جن سے ہم تمسک رکھتے ہیں.
 
ہمارے استاد (اشارہ [[سلیمان البحرانی]] کی طرف ) نے مجتہدوں اور اخباریوں کے فروق کے بارے میں جو بعض جوابات تحریر کیے ہیں اس میں یہ لکھا ہے کہ اخبار میں تعارض کی صورت میں [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] ترجیحات کو اخذ نہیں کرتے ہیں مگر ان قواعد کے ذریعے سے جو [[اہل ذکر]] علیھم السلام سے صادر ہوۓ ہیں. جنھیں ثقہ الاسلام [[محمد بن یعقوب الکلینی|کلینی]] رح نے اپنی [[کتاب الکافی|کتاب کافی]] کے دیباجہ میں ذکر کیا ہے. اور اگر یہ مذکور نہ بھی کیا جاتا تو پھر بھی ایسی صورت میں توقف کرنا ضروری ہوتا کیونکہ جیسا کہ [[چودہ معصوم|معصوم]] کا فرمان ہے کہ ملتوی کر دیا کرو اسے یہاں تک کے اپنے امام سے نہ مل لو،
 
یا پھر جیسا کہ دیگر اخبار میں آیا ہے کہ ، تم اس میں آزاد ہو کہ تسلیم کی غرض سے 2 (متعارض) میں سے کسی 1 کو چن لو اور اس پر عمل کرو.
 
ان 2 قسموں کے احکام جو کہ مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں کہ بارے میں بعض نے یہ تفسیر کی ہے کہ ان میں سے پہلا حکم تو دنیاوی امور سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ [[وراثت]] وغیرہ مسائل کہ جن میں انتخاب کی کوئی گنجاش نہیں (لہٰذا خبر کو پلٹایا جائے گا [[چودہ معصوم|امام معصوم]] کی طرف ) اور دوسرا حکم باقی تمام امور کو شامل ہے. جبکہ ثقہ الاسلام [[محمد بن یعقوب الکلینی|کلینی]] رح نے [[کتاب الکافی|الکافی]] میں ایسی اخبار جمع کی ہیں جس میں ظاہراً ہر 2 صورت میں ہی اخیتار دیا گیا ہے (کہ 2 میں سے 1 کو چنا جائے). اور یہ تو پھر بھی طے شدہ امر ہے کہ خبر کو [[چودہ معصوم|عالم علیہ السلام]] کی طرف ہی پلٹایا جائے گا. اور واقعا اس سے زیادہ سہل اور آسان کچھ نہیں ہو سکتا ہے کہ، متعارض معاملات کو [[چودہ معصوم|عالم علیہ السلام]] کی طرف ہی پلٹایا جائے. اور اس کے باوجود امام نے یہ آسانی مہیا کر رکھی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ دو میں سے جس پر چاہو عمل کرو اور تسلیم ہو جاو.
 
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مجتہدوں کی اجتہادی تاویلات کی کوئی حد ہی نہیں ہوا کرتی ہے، بلکہ ان کی اکثر تاویلات تو خود حقیقت سے ہی بہت دور ہوتی ہیں.
 
اس لیے، اس معاملے میں اخباریوں کے طریق کو ترجیح دینا، [[عقل سلیم]] کے نزدیک ثابت ہے.
 
یہاں ہمارے شیخ (سلیمان البحرانی) کا کلام ختم ہوا. الله جنت میں ان کے درجات کو بلند کرے. جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اخباریوں کے حق میں انصاف سے کام لیتے ہوۓ کلام کیا اور یہ اعتراف کیا کہ مجتہدین کا قاعدہ نہایت کمزور اور حقیقت سے دور لے جانے والا ہوتا ہے اور دونوں فریقوں کے مابین تحقیقی نزاع میں فرق کے اعتبار سے فیصلہ کن گفتگو کی.
 
'''نکتہ نمبر 12'''
 
مجتہدین کسی 1 کے لیے بھی یہ جائز قرار نہیں دیتے ہیں کہ وہ احکام میں سے کوئی چیز اخذ کرے، یا اس پر عمل ہی کرے حتی کہ کوئی مسلہ یقینی روایات و احادیث سے ثابت ہی کیوں نہ ہو جائے، جب تک کہ وہ شخص درجہ [[اجتہاد]] پر نہ ہو.
 
اور اگر وہ درجہ اجتہاد پر نہیں تو ایسا شخص عالم یا فقیہ نہیں کہلوا سکتا بلکہ متعلم اور ملقد ہی ہو سکتا ہے اور ان کیلیے جائز نہیں کہ احکامات کو اخذ کریں.
 
چاہے پھر اس کے پاس کسی حکم کے متعلق ایک ہزار احادیث ہی کیوں نہ ہوں اگر وہ درجہ اجتہاد پر نہیں تو وہ ان پر عمل نہیں کر سکتا ہے، اور اس کے لیے [[واجب]] ہے کہ [[مجتہد]] کی رائے کی طرف رجوع کرے اور [[مجتہد]] کے ظن کو قبول کرے اور احادیث سے جو کچھ اس نے علم حاصل کیا ہے اس کو ترک کر دے.
 
جبکہ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] کہتے ہیں کہ عام [[مومن]] کے لیے یہ جائز ہے، بلکہ [[واجب]] ہے کہ وہ [[حدیث]] پر عمل کرے چاہے وہ 1 ہی حدیث کیوں نہ ہو، اگر اس کا صحیح ہونا اور امام سے صدور ہونا ثابت ہو. اور یہ کہ اس کے تعارض میں کوئی دوسری ملتی جلتی خبر نہ ہو.
 
اور اخباریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ [[مجتہد]] کی طرف رجوع کیا جائے، [[حدیث صحیح]] کے بغیر جو واضح طور پر مجتہدوں کی طرف رجوع پر دلالت کرتی ہو (جبکہ ایسی کوئی خبر موجود نہیں کہ عامی [[اصول فقہ]] اپنانے والوں سے [[دین]] لیا جائے).
 
'''نکتہ نمبر 13'''
 
مجتہدین کہتے ہیں کہ ان روایات پر عمل کرنا کہ جو معنی کے اعتبار سے مختلف جہات رکھتی ہوں (جیسا کہ حدیث تقلید کی کئی جہات جو خود مجتہدین کے خلاف ہیں کو چھوڑ کر جہتِ واحد اپنی [[تقلید]] کروانے والے ٹکڑے کو اپنا لینا) پر عمل کرنا جائز ہے. اور بعض جو کہ ظاہرا معنی رکھتی ہوں ان پر بھی عمل کرنا جائز ہے اور اسی طرح آیات کے ظاہر کا بھی معاملہ ہے کہ ان پر عمل کیا جا سکتا ہے.
 
جبکہ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] اس عمل کو جائز نہیں کہتے ہیں، وہ سوائے [[احادیث صریحہ]] اور [[آیات محکمات]] کے کسی پر عمل نہیں کرتے ہیں. یعنی ان اخبار پر عمل کرتے ہیں جن میں کسی قسم کا شبہ وارد نہیں ہوتا ہے. اور وہ معانی کے لحاظ سے واضح اور لغت عربی کے لحاظ سے بھی واضح ہوتی ہیں، اور جہاں کہیں جو امر متشابہ ہو جائے اس پر عمل کرنا ناجائز ہو جاتا ہے، اور یہ ان اخباریوں کے نزدیک قرآن کی نص سے ثابت ہے کہ متشابھات کی پیروی نہ کی جائے.
 
'''نکتہ نمبر 14'''
 
مجتہدین کہتے ہیں کہ حکم شرعی میں استحباب اور کراہت کے احکام، احادیث ضعیف سے اخذ کیے جا سکتے ہیں ، بلکہ بعض مجتہدوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مجتہد حکم کے متعلق فتوی میں اپنی رائے پر ہی انحصار کر سکتا ہے اگرچہ اس کے پاس بطور دلیل خبر نہ بھی ہو.
 
جبکہ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] حضرات احکام کی پانچوں اقسام میں اپنی رائے سے کوئی تفریق نہیں کرتے ہیں جو ان کے نزدیک یقینی علمی دلیل یعنی [[حدیث]] شریف سے ثابت ہو جائے اور وہ یہ اقسام ہیں، واجبات، مستحبات، محرمات، مکروہات اور مباحات.
 
'''نکتہ نمبر 15'''
 
مجتہدین کا کہنا ہے کہ جب کوئی [[مجتہد]] مر جاتا ہے تو اس کی [[تقلید]] کرنا [[باطل]] ہو جاتی ہے. اور اسی طرح اس کے فتاوی بھی مر جاتے ہیں. جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فوت شدہ کا قول بھی اس کی [[میت]] کی طرح ہی ہوتا ہے.
 
جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ حق حیات یا [[موت]] کی وجہ سے تغیر پزیر نہیں ہوتا ہے. اس لیے کہ حق میں تبدیلی واقع ہو ہی نہیں سکتی ہے. انشا الله اس پر مزید بیان آنے والے مسلہ میں قدرے تفصیل سے آئے گا.
 
'''نکتہ نمبر 16'''
 
مجتہدین جائز سمجھتے ہیں کہ [[قرآن]] کے ظاہر سے معانی اخذ کیے جائیں جب کہ اس کی موافقت میں کوئی [[حدیث]] موجود نہ بھی ہو. اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ وہ بجائے [[حدیث]] کے [[قرآن]] کے ظاہر سے معانی اخذ کریں، کیونکہ [[حدیث]] [[قرآن]] کی آیات کی طرح قطعی متن نہیں رکھتی ہے، جبکہ [[قرآن]] کی آیات قطعی دلالت بھی رکھتی ہیں جبکہ خبر کی دلالت میں ایسی قطعیت نہیں ہوا کرتی ہے.
 
جبکہ [[اخباری]]، [[قرآن]] کے ظاہر سے معانی کو اخذ کرنا جائز نہیں سمجھتے ہیں، سوائے ان آیات کے کہ جن کی [[تفسیر]] و تاویل [[چودہ معصوم|معصومین]] علیھم سلام سے پہنچ جائے، یعنی آیات کے بارے میں جو کچھ احادیث سے ثابت ہو جائے وہ معانی [[حجت]] ہوں گے اور ظاہر [[قرآن]] سے کسی کا کچھ بھی اپنی رائے سے اخذ کر لینا درست نہیں ہو گا.
 
اس کی وجہ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] یہ بتاتے ہیں کہ، [[قرآن]] کو مکمل طور پر وہی سمجھ سکتا ہے کہ جس سے [[قرآن]] کا خطاب ہوا ہے یعنی [[محمد|رسول الله]]، اور اس لیے بھی کہ [[قرآن]] میں محکمات اور متشابہ دونوں ہیں. محکم وہ کہ جس میں کوئی شک نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے متشابہ ہو گا، اور اس متشابہ کو کوئی بھی جاننے کا دعوی نہیں کر سکتا سوائے [[چودہ معصوم|راسخون فی العلم]] پاک ہستیوں کے. اور یہ راسخون ہمارے [[چودہ معصوم|آئمہ]] ہیں، جیسا کہ [[قرآن]] کی [[آیت]] کی تفسیر میں خود فرمایا گیا ہے کہ ہم راسخون فی العلم ہیں.
 
اور یہ دلیل ہے کہ متشابہ سے بغیر نص کے اخذ کرنا عمل [[حرام]] ہے، اور [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] اسی لیے سختی سے ایسے عمل کہ جس میں [[قرآن]] کے ظاہر کو ذاتی رائے سے سمجھا جائے، سے منع کرتے ہیں. جیسا کہ ہم نے اس نکتہ میں ذکر کیا ہے. اور مجتہدوں کے نکتہ نظر کو رد کیا ہے.
 
یعنی جو کچھ مجتہد [[قرآن]] کے قطعی ہونے کے بارے میں کہتے ہیں، وہی کچھ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] حضرات [[قرآن]] کے ساتھ ساتھ [[حدیث]] کے بارے میں بھی کہتے ہیں. کہ [[قرآن]] و [[حدیث]] دونوں قطعی متن و رکھتے ہیں.
 
اخباریوں کا یہ کہنا ہے کہ احادیث بھی قطعی المتن اور قطعی دلالت کرنے والی ہوتی ہیں، جیسے متواترات و محکمات اخبار ہوں، جبکہ [[قرآن]] کا قطعی المتن ہونا، اس سے قطعی دلالت کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ اس کے سمجھنے کے لیے خبر کی ضرورت رہتی ہے اس لیے [[قرآن]] کی ہر [[آیت]] کو (بغیر تفسیر [[چودہ معصوم|معصوم]] کے ) دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے اور یہی صورتحال اخبار کے ساتھ بھی ہوتی ہے (یعنی ان کی درایت کے لیے بھی دیگر احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے). فتأمل!
 
'''نکتہ نمبر 17'''
 
مجتہدین کہتے ہیں کہ جب کسی حکم شرعی سے متعلق امام کا حکم ملنا ناممکن ہو جائے تو ایسے حکم شرعی کے حل کے لیے [[اجتہاد]] کرنا جائز ہے.
 
جبکہ اخباریوں نے [[اجتہاد]] کرنے میں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں رکھی یعنی ان کے نزدیک [[اجتہاد]] تب بھی [[حرام]] ہے جب کسی مسلہ میں نص [[معصوم]] معلوم نہ ہو، اور اس صورت میں بھی وہ معصوم کی طرف رجوع کرنے کو مطلقہ طور پر [[واجب]] کہتے ہیں.
 
[[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] اول تو ایسے مسائل پر تحقیق کرتے ہیں کہ خبر مل جائے، اگر خبر مل جائے تو وہی کچھ کہتے ہیں جو خبر میں آیا ہو اور اگر خبر یعنی [[حدیث]] نہ ملے تو وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں اور توقف کرتے ہیں، یعنی وہ مولا کے اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوۓ ہیں کہ فرمایا " جب تمھیں علم ہو تو پھر بولو اور جب تمھیں علم نہ ہو تو ... یہ فرما کر امام نے اپنے ہاتھ مبارک کو سینہ مبارک پر رکھا، یعنی تب خاموش رہو اور توقف کرو" نیز دیگر مقام پر فرمایا " امور تین طرح کے ہوتے ہیں اول یہ کہ جہاں امر بالکل واضح ہو اس کی پیروی کی جاتی ہے، دوسرا ایسا معاملہ ہوتا ہے جہاں شک و شبہ واضح ہوتے ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے، اور تیسرا ایسا مسلہ ہے جو بہت مشکل ہوتا ہے کہ جس کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے اسے [[الله]] اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے. "
 
نیز ، [[ہشام بن حکم|ہشام بن الحکم]] سے مروی ہے کہ انہوں نے مولا [[جعفر صادق|امام صادق]] آل محمد سے سوال کیا کہ مولا قربان جاؤں [[الله]] کا اپنی [[مخلوق]] پر کیا حق ہے؟ تو مولا نے جوابا فرمایا یہ کہ مخلوق وہی کچھ بولے جس کا علم رکھتی ہے اور وہاں توقف کرے جہاں اس کے پاس علم نہ ہو اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو گویا انہوں نے [[الله]] کا حق ادا کر دیا.
 
اس کے علاوہ ان ذوات مقدسات سے یہ بھی حدیث ہے کہ ، فرمایا " جب تمہارے پاس کوئی ایسا معاملہ آئے کہ جس متعلق تم علم نہیں رکھتے ہو، تو لازما اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اور اس بارے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے. اور اس بارے میں سچ جاننے کے لیے اس معاملے کو آئمہ کی طرف پلٹانا چاہیے، تاکہ وہ اس معاملے کے بارے میں تمھیں صحیح راستہ دکھائیں، شکوک کا خاتمہ کر دیں، اور اس معاملے کے بارے میں حق کی تمھیں تعلیم دیں"
 
[[الله]] عزوجل کا قول ہے کہ "اگر تم علم نہیں رکھتے تو [[اہل ذکر]] سے پوچھو"
 
اس کے علاوہ بھی اس پر اخبار کثیر ہیں، جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے.
 
'''نکتہ نمبر 18'''
 
مجتہدین کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ جب [[اجتہاد]] کرتے ہیں اور ان کے [[اجتہاد]] میں خطاء نہ ہو تو انھیں اس کے 2 اجر ملتے ہیں ایک حق کو اخذ کرنے کا اجر اور دوسرا ان کی انتھک محنت کا اجر. حتی کہ اگر ان کے [[اجتہاد]] میں خطاء بھی ہو جائے تو انہیں پھر بھی اپنا لہو پسینہ ایک کرنے کا ایک اجر ضرور ملتا ہے. اس موقف کی تائید میں وہ رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم سے ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں.
 
جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ ہر صورت میں ہی مجتہدین [[گناہ]] کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسا اس لیے ہے کہ اگر بالفرض اس نے حق کو اخذ بھی کر لیا تو ایسا کرنا بھی [[الله]] کی طرف سے علم کے بغیر اخذ کرنا ہی کہلائے گا=، کیونکہ اس نے معصوم سے روایت کے بغیر اسے اخذ کیا ہے. اور اگر کہا جائے کہ اس نے روایت سے حق کو اخذ کیا ہے تو یہ پھر [[اجتہاد]] کہلائے گا ہی نہیں، اور اگر اس نے [[اجتہاد]] میں خطاء کی تو گویا اس نے [[الل]]ه پر [[جھوٹ]] باندھا.
 
[[ابو بصیر]] سے روایت ہے کہ، میں نے مولا [[جعفر صادق|امام صادق آل محمد]] سے پوچھا کہ بعض اوقات ہمارے پاس ایسے معاملات آتے ہیں، کہ جن کے متعلق ہم کچھ علم نہیں رکھتے ہیں [[قرآن]] میں سے یا [[سنت]] میں سے، تو کیا پھر ہمارے لیے جائز ہے کہ ان امور میں نظر کریں؟
 
فرمایا، یقینا نہیں! اگر تم نے ان کے بارے میں حق کو اخذ بھی کیا تو تمھیں اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا، اور اگر تم نے خطاء کی تو تم نے [[الله]] پر [[جھوٹ]] باندھا.
 
اسے [[محمد بن یعقوب الکلینی|کلینی]] رح نے [[کتاب الکافی|الکافی]] میں اور [[احمد بن محمد]] نے المحاسن میں اور [[شیخ صدوق]] نے الفقیہ میں درج کیا ہے کہ ، ا[[جعفر صادق|امام صادق آل محمد]] سے روایت ہے کہ، قاضیوں کی اقسام 4 ہیں، جن میں سے 3 طرح کے [[قاضی]] جہنمی ہیں، ایسا شخص کہ جو فیصلہ کرے اور جانتا ہو کہ ناحق فیصلہ کر رہا ہے تو وہ [[جہنم]] میں جائے گا، اور ایسا شخص جو بغیر جانتے ہوۓ ایسا فیصلہ کرے جو [[ظلم]] کا فیصلہ ہو تو وہ بھی [[جہنم]] میں جائے گا، تیسرا وہ شخص ہے کہ جو فصیلہ تو حق کے ساتھ کرے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ فیصلہ حق ہے تو اس کا ٹھکانہ بھی [[جہنم]] ہی ہے. اور چوتھا وہ شخص ہے کہ جو حق کے ساتھ فیصلہ کرے اور جانتا ہو کہ یہی صحیح فیصلہ ہے تو وہ جنتی ہو گا.
 
اور یہ بھی ان ذوات مقدسات کا قول ہے کہ فرمایا "فیصلے 2 طرح کے ہوا کرتے ہیں، [[الله]] کا فیصلہ اور جاہلیت کا فیصلہ جس کسی نے جاہلیت کے حکم میں خطاء کی تو اس نے الله کے حکم کو پا لیا اور جس کسی نے الله کے حکم میں خطاء کی تو اس نے جاہلیت کے فیصلے کو پا لیا.
 
اور انہی معنوں میں کثرت کے ساتھ دیگر اخبار بھی وارد ہوۓ ہیں.
 
اور اس متعلق قرآنی آیات بھی موجود ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ ہم کیے دیتے ہیں:
 
"اور جو کوئی حکم نہیں لگاتے اس کے مطابق جو کچھ الله نے نازل کیا ہے تو وہی ہیں ظالمین اور وہی ہیں فاسقین، اور وہی ہیں کافرون"!<ref>سوره 5، آیات 44، 45، 47
</ref>
 
یہاں ہم یہ بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس نکتہ کے آغاز میں جو ہم نے لکھا تھا کہ مجتہدین اپنے اس باطل عقیدہ پر 1 عدد روایت نبی صلی الله علیہ والہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، اخباریوں کے نزدیک اس روایت کی صحت ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ وہ روایت یا اس سے ملتے جلتے مضمون میں کوئی شئی ہماری [[حدیث]] کی کتابوں میں موجود نہیں ہے. اور وہ عامہ کی ہی منفرد روایت ہے اور وہی ہیں جنہوں نے اسے گھڑا ہے البتہ جہاں تک اس کی تخریج کا معاملہ ہے جو [[اصول فقہ]] کے ماہرین نے کی ہے تو ایسا ان کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے, کیونکہ اگر یہ [[سنی]] روایت درست ہوتی تو پھر یہ ہمارے اصحاب کی بیان کردہ کثرت سے احادیث کے متعارض ہوتی، جبکہ جو اخبار ہمارے پاس ہیں وہ [[قرآن]] کی موافقت میں اور عامہ کی مخالفت میں ہیں.
 
پھر آپ دیکھیے کہ جیسا کہ ہم نے اپنی دیگر کتب میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ، صحیح اخبار میں سے ترجیح کو 2 صحیح طریقوں سے اخذ کیا جاتا ہے.
 
ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ، شہرت خبر کو دیکھا جائے. اور ایسا ان([[چودہ معصومین]]) کے اس قول کی بنا پر ہے کہ فرمایا "وہ کچھ لے لیا کرو جو تمہارے اصحاب کے مابین مشہور ہو اور اس کو ترک کر دیا کرو جو شاذ ہو اور مشہور نہ ہو"
 
اور ہم نے اس نکتہ میں جتنی بھی اخبار کا ذکر کیا ہے وہ ایسی روایت ہیں جو ہمارے اصحاب اور اصحاب حدیث میں بہت زیادہ مشہور ہیں جبکہ ان کے برعکس وہ عامی طریق سے وارد خبر ہے جس پر مجتہدین اپنا عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں.
 
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ، احیتاط کے ساتھ موافقت قائم کی جائے، اور ایسا بھی فقط تب کیا جاتا ہے جب اخبار صحیحہ میں ترجیحات کا مسلہ وارد ہو.
 
'''نکتہ نمبر 19'''
 
مجتہدین کا کہنا ہے کہ امور 2 طرح کے ہوتے ہیں، ایک ایسا امر جس کی دلیل واضح ہو چاہے پھر وہ ظن پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، لہذا اسے اخذ کرنا [[واجب]] ہے. دوسرا امر خفی ہے جس کی دلیل غائب ہو. اس صورت میں بھی [[واجب]] ہے کہ اسے اخذ کیا جائے اور اس کی اصل کو جانا جائے، [[الله]] کے ان احکام کے ذریعے جو اس سے ملتے جلتے ہوں، اور ایسا کرنے میں توقف اور احتیاط ہرچند [[واجب]] نہیں ہے.
 
جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ امور 3 طرح کے ہیں، یعنی [[غیر معصوم]] لوگوں کے لئے یہ 3 طرح کے ہیں، اول وہ ہیں جن میں حق واضح ہو تو [[واجب]] ہے کہ ان کی پیروی کی جائے، دوسرے وہ ہیں جن میں سراب واضح ہو تو پس ان سے اجتناب کیا جائے، اور تیسری قسم ایسے امور کی ہے کہ جن کے درمیان شکوک و شبہات ہوں.
 
پس جس کسی نے شبہات سے اخذ کیا تو اس نے ایسے امور پر عمل کیا جن پر عمل کرنا [[حرام]] ہے. اور وہ ہلاک ہو گیا کیونکہ وہ اس بارے میں علم نہیں رکھتا تھا. اور ان معاملات کہ جن کے بارے میں ذوات مقدسات ص سے خبر وارد نہ ہو میں احتیاط لازم ہے، اور ہر ہر مسلہ میں معصوم کی طرف رجوع کرنا [[واجب]] ہے.
 
'''نکتہ نمبر 20'''
 
مجتہدین کا کہنا ہے کہ ایسے عقائد جو متکلمین کے ادلہ کہ جن پر [[قرآن]] و [[حدیث]] سے کوئی دلیل نہ ہو کو اپنانا جائز ہے.
 
جبکہ [[اخباری (اہل تشیع)|اخباری]] اس قسم کی باتوں کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں جیسا کہ آپ نے اب تک کے نکات میں واضح طور پر دیکھ اور سمجھ لیا ہے کہ وہ ہر بارے میں [[قرآن]] و [[سنت]] پر عمل کرنے پر سختی کرتے ہیں.