"لاہور کی عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
[[لاہور]] میں [[عزاداری]] کے واضح اور مستند شواہد حضرت [[داتا گنج بخش]] اور [[بی بی پاکدامن|بیبیاں پاکدامناں]] کے علاوہ [[شاہ حسین زنجانی]] اور حضرت [[میاں میر]] کے عہد میں بھی ملتے ہیں اور پھر [[ملا احمد ٹھٹھوی]] اور قاضی [[نور اللہ شوشتری]] کے عہد میں بھی [[عزاداری]] پورے اہتمام سے تھی۔ تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کی بجائے اگر ماضی قریب میں دیکھیں تو [[لاہور]]میں پرانے شہر میں اندرون [[موچی دروازہ|موچی دروازے]] کا علاقہ اہمیت کا حامل ہے، جہاں کا محلہ شیعاں دنیا بھر میں [[عزاداری]] کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ موچی دروازے ہی کی نثار حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے جہاں [[قزلباش]] خاندان نے [[1800]] کے اوائل میں [[محرم]] کی مجالس کرنا شروع کیں اور اب [[ماڈل ٹاؤن]] کے جامعہ المنتظر اور اس سے آگے [[راۓ ونڈ]] روڈ تک پھیلی نئی آبادیوں میں قائم عزا خانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں [[علم]] اور ماتمی [[جلوس]] نکالے جا رہے ہیں۔
]]تفصیل]]
 
 
نواب خاندان میں نواب [[مظفر علی خان قزلباش|مظفر علی قزلباش]] کو مقبولیت ملی کیونکہ وہ [[پنجاب]] کے [[چیف منسٹر]] بھی رہے۔ اس خاندان کی اہم شخصیت نواب رضا خان تھے جن کے اجداد میں سر نوازش علی خان [[نواب]] آف [[لاہور]] قرار پائے اور انکا انتقال [[1890ء]] میں ہوا اور [[عزاداری]] کا کام انکے چھوٹے بھائی نواب ناصر علی کے ذمے آیا جو [[1898ء]] میں انتقال کر گئے، جسکے بعد یہ انتظام نواب فتح علی کے ذمے تھا اور یہیں سے [[لاہور]] میں [[عزاداری]] کا عروج شروع ہوتا ہے۔ آج بھی [[لاہور]] میں نثار حویلی کا جلوس وقت کے اعتبار سے طویل ترین جلوس ہے جو 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے کے بعد [[بھاٹی دروازہ|بھاٹی دروازے]] میں [[گامے شاہ]] پر ختم ہوتا ہے۔ [[مصطفی علی ہمدانی|مصطفیٰ علی ہمدانی]] نے [[ریڈیو پاکستان]] کے لئے تیار کئے جانے والے دستاویزی پروگرام میں بتایا تھا کہ [[گامے شاہ]] اور مائی گاماں دراصل دونوں [[مجذوب]] تھے، جو عاشور کے دن [[سر]] پر گتے کا [[تعزیہ]] رکھ کر [[کرشن نگر]] سے [[داتا دربار]] تک آتے تھے جہاں اس وقت [[دریائے راوی]] بہتا تھا اور یہاں [[تعزیہ]] ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ جب بابا گامے کا انتقال ہوا تو اسے [[داتا دربار]] کے عقب میں [[دفن]] کیا گیا اور اس کا نام گامے شاہ پڑ گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نواب ناصر علی خان کے علاوہ اردو ادب کے ایک شہنشاہ مولانا [[محمد حسین آزاد]] کا بھی مزار موجود ہے۔