"ہجومی تشدد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 13:
<ref>https://www.aljazeera.com/indepth/features/2012/12/2012121614107670788.html</ref> یہ قتل یا تو برادری کے بارے معاشقے یا شادی کو لے کر ہوئے یا پھر مبینہ ناجائز تعلقات کا اجتماعی رد عمل تھے۔ مسیحی مبلغین بھی کچھ ہجومی تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ <ref>https://www.indiatoday.in/magazine/cover-story/story/19990208-staines-killing-murder-of-australian-missionary-and-his-two-sons-in-orissa-shocks-india-780092-1999-02-08</ref>
 
جدید دور میں [[واٹس ایپ]] میں شخصیات اور گروہی پیامات کے ارسال کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ تاہم یہ [[فرضی خبر|بناوٹی خبروں]] کے فروغ کا بھی اہم ذریعہ بن گیا اور اس سے کئی ہجومی تشدد کے واقعات، ملک بھر میں نفرت اور قتل کے واقعات میں بھی رونما ہوئے۔ کئی لوگ محض شک اور مشتبہ افراد کی تصویروں کے گشت ہونے کی وجہ سے عوامی تشدد کی زد میں آ گئے۔ [[آسام]] سے [[تمل ناڈو]] تک ان میں سے کئی لوگ چندے میں جمع ہوئی مار پیٹ کی وجہ سے بری طرح سے زخمی ہوئے اور کئی لوگ مارے بھی گئے ہیں۔ <ref>https://thelogicalindian.com/news/fake-whatsapp-child-kidnappers/</ref>
 
[[2019ء]] کی [[فروری]] تک رپورٹ میں ایک اندازے کے مطابق مبینہ گاؤکشی کے خلاف ہجومی تشدد میں گزشتہ تین سالوں میں 44 لوگ ہلاک اور 280 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ان تین سالوں میں 100 ایسے حملے ہوئے تھے۔اس ہجومی تسشدد کا شکار اقلیتی فرقے کے لوگ ہی نہیں بلکہ کچھ دلت بھی مارے گئے ہیں، حالانکہ مہلوکین کی اکثریت مسلمان تھی۔ <ref>https://www.bloomberg.com/news/articles/2019-02-20/cow-vigilantes-in-india-killed-at-least-44-people-report-finds</ref> [[2019ء]] میں [[نریندر مودی]] کی انتخابی جیت کے بعد اس تشدد میں مسلمانوں سے جبرًا جے شری رام کہلوانا بھی شامل ہو گیا۔ ایضًا کچھ ہندوؤں پر بھی دباؤ ڈالا جانے لگا۔ [[2019ء]] میں [[پونے]] کے ایک ہندو ڈاکٹر ارون گاڈرے کو بھی ان کی مرضی کے خلاف [[دہلی]] میں جے شری رام کہنا پڑا۔ <ref>https://www.indiatoday.in/india/story/pune-doctor-accosted-in-delhi-asked-to-chant-jai-shri-ram-1536706-2019-05-28</ref>