"لاہور کی عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 16:
علامہ حائری کے بیٹوں میں آغا سید رضی، آغا سید ذکی اور آغا سید تقی سب [[وفات]] پا چکے ہیں اور اب یہ [[خاندان]] لگ بھگ سارے کا سارا وسن پورہ چھوڑ کر [[لاہور]] کی جدید آبادیوں میں مقیم ہو چکا ہے۔ علامہ سید علی الحائری کی تین بیٹیاں تھیں جن میں محترمہ سائرہ جن کے شوہر آغا سید رضی تھے جو [[کالا شاہ کاکو]] کے حادثے میں فوت ہوئے تھے۔ محترمہ ذکیہ جن کے شوہر آغا سید حامد حسین تھے انہوں نے [[1970ء|70]] کے عشرے میں [[لاہور]] [[گلبرگ، لاہور|گلبرگ]] میں مجالس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ علامہ حائری کی سب سے چھوٹی بیٹی عالیہ تھیں جنکے شوہر سید تقی تھے جنہیں ہم سب آغا بابا کہتے تھے۔ [[صفدر ہمدانی]] کہتے ہیں کہ یہاں ایک اور تاریخی حقیقت کی طرف صرف اشارہ کرتا چلوں جو مجھے میرے والد مرحوم [[مصطفی علی ہمدانی]] نے بتائی تھی اور اس بات کا ذکر انہوں نے [[لاہور]] کی [[عزاداری]] کی تاریخ کے موضوع پر بنائی جانے والی [[ریڈیو]] [[لاہور]] کے اس واحد دستاویزی [[پروگرام]] میں کیا تھا جو شاید اب [[ریڈیو پاکستان]] کے آرکائیو میں بھی موجود نہ ہو حالانکہ اس [[پروگرام]] کو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے سنٹرل پروڈکشن کے آرکائیو رجسٹر میں درج کیا تھا۔
 
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ [[لاہور]] کے [[10 محرم]] کے تاریخی جلوس کا جو راستہ ہم گذشتہ کئی عشروں سے دیکھ رہے ہیں دراصل یہ وہ (روٹ) راستہ نہیں ہے جو ابتداء میں تھا۔ [[1850ء]] کے عشرے میں [[موچی دروازہ|موچی دروازے]] سے [[10 محرم]] کے [[ذوالجناح]] کا پہلا جلوس [[مبارک حویلی]] سے نکلا تھا کیونکہ اس وقت [[نثار حویلی]] الگ نہیں تھی۔ یہ تو بعد میں [[1928ء]] میں خاندانی تنازعوں اور [[جائیداد]] کی تقسیم کی وجہ سے عمل میں آئی اور یہ جلوس نثار حویلی سے نکلنے لگا۔ [[بر سبیل]] تذکرہ [[تاریخ]] سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے عرض ہے کہ [[کوہ نور]] [[ہیرا]] ایک زمانے میں اس مبارک حویلی میں بھی رکھا گیا تھا۔ [[مرحوم]] شاہد نقوی نے بھی اپنی تحقیقی [[کتاب]]‘‘[[عزاداری]]‘‘ میں اس تاریخی جلوس کا جو راستہ لکھا ہوا ہے وہ بھی موجودہ راستہ ہے۔ ابتدا میں [[10 محرم]] کی [[نصف شب]] میں نثار حویلی سے برآمد ہو کر [[نماز]] [[فجر]] تک محلہ شیعاں میں پہنچتا، جہاں [[فجر]] کی [[نماز]] ادا کی جاتی اور پھر یہاں سے [[لال کھوہ]] سے ہوتا ہوا جلوس [[کیلیاں والی سڑک]] پر نکل جاتا جسے آج کل [[برانڈرتھ روڈ]] کہا جاتا ہے۔
 
اس کیلیاں والی سڑک سے جلوس سیدھا [[انارکلی بازار|انار کلی]] کے باہر سے ہوتا ہوا [[بھاٹی دروازہ|بھاٹی دروازے]] پہنچتا تھا جہاں سے [[داتا دربار]] کے عقب میں [[کربلا گامے شاہ|کربلائے گامے شاہ]] میں اسی جگہ اختتام پذیر ہوتا تھا جہاں آج تک ہوتا ہے۔ اس طرح اس بڑے اور کشادہ راستے پر اس تاریخی عظیم الشان جلوس کی شان ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ [[1958ء]] میں جب وہ اس وقت کے [[مغربی پاکستان]] کے [[وزیر اعلی|چیف منسٹر]] مقرر ہوئے تو [[حکومت]] کے ارباب بست و کشاد نے انہیں اس راستے کو تبدیل کرنے کو کہا۔ [[سیاست]] اور سیاست دانوں کی اپنی [[دنیا]] اور اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ [[نواب]] [[مظفر علی خان قزلباش]] نے اپنی [[وزیر اعلی|چیف منسٹری]] کے زمانے میں اس راستے کو تبدیل کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی اور آج یہ تاریخی جلوس اندر ہی اندر تنگ و تاریک گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا کربلائے گامے شاہ پہنچ کر ختم ہوتا ہے اور باہر [[دنیا]] کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتنا بڑا اور کیسا تاریخی جلوس ہے۔