"حدیث" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7:
== حدیث کی شرعی حیثیت ==
 
<big>کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، شمس الائمہؒ کہتے ہیں، شریعت کی تین حجتیں (بنیادیں) ہیں، کتاب اللہ، سنت اور اجماع، چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہیں؛ اگرغور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ ان تمام اصولوں کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا اور آیات کی تلاوت کی ،جوبطریقۂ تواتر ہم تک پہنچا ہے (اصول السرخسی:1/279) اور اجماع امت اور قیاس بھی آپﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے معتبر ہیں توجب دین کی بنیاد رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی ٹھہری تو پھر عبادت واطاعت کے معاملہ میں حدیث وقرآن میں فرق کرنا بے بنیاد ہے؛ کیونکہ یہ دونوں اطاعت میں برابر ہیں؛ البتہ حجت دین کے بارے میں دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسول ہے، حجت قطعی ہے؛ البتہ رسول سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔</big>
 
== حدیثِ رسول قرآن کی نظر میں ==
سطر 36:
 
ترجمہ:اور ہم نے تمہاری طرف الذکر یعنی قرآن نازل کیا؛ تاکہ تم لوگوں کے ساتھ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کو کھول کھول کر بیان کرو۔
<big>ان تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احادیثِ رسول، اللہ کی وحی کا حصہ اور قرآن کی تفسیر ہیں، ان کے بغیر نہ دین کی صحیح تفہیم ہوسکتی ہے اور نہ دین عملی زندگی میں پوری طرح جاری ہو سکتا ہے؛ اسی لیے حضرت عمران بن حسینؓ سے ایک شخص نے جب سوال کیا اور آپ نے اس کے جواب میں حدیث سنائی تو اس نے کتاب اللہ سے جواب دینے کے لیے کہا تو آپ نے کہا "انک امرءاحمق" تم احمق آدمی ہو، کیا تم قرآن میں یہ پاتے ہو کہ ظہر کی نماز میں چار رکعات فرض ہیں، جس میں بآواز بلند قرآن پڑھا نہیں جاتا؛ اسی طرح انہوں نے مختلف نمازوں کو گنایا اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر کیا؛ پھرفرمایا:کیا یہ سب تم قرآن میں تفصیل سے پاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ نے ان سب کواجمالاً بیان کیاہے اور سنت ہی اس کی تفصیل کرتی ہے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ:3/62)</big>
 
== حدیث خودرسول کی نگاہ میں ==
سطر 56:
== حدیث اصحابِ رسول کی نگاہ میں ==
 
<big>اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے کہا:اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو گودنا کراتی یاکرتی ہیں اور ان پر جو چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں اور حسن وزیبائی کے لیے دانتوں کے درمیان میں دراڑ پیدا کرکے اللہ کی تخلیق میں تغیر کرتے ہیں، اس حدیث کو بنواسد کی ایک عورت نے سنا توحضرت عبد اللہ بن مسعود سے کہا آپ کی یہ روایت مجھ تک پہنچی ہے اور معلوم ہوا کہ آپ فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ نے کہا میں اس پر کیسے لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے، عورت نے کہا میں نے بھی قرآن پڑھا ہے؛ لیکن مجھے تواس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی، حضرت عبد اللہؓ نے کہا :اگرتو نے غور سے پڑھا ہوتا توضرور نظر آتی، کیا اللہ نے نہیں فرمایا:
<font face="Al Qalam Quran Majeed"><big>مَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُو</big></font>(الحشر:7)۔
(مشکوٰۃ شریف:381)
سطر 82:
متقی الہندی، کنزالاعمال، فی فضائل مکہ(المحدث سوفٹ ویئر میں اس حدیث کا نمبر 12521 ہے
ابو الحسن القطان نے الطوالات میں۔
حاکم نے اپنی کتاب "المستدرك"، جلد 1، صفحہ 457 پر۔پر</big>۔
 
== حدیث اور سنت میں فرق ==