"ام کلثوم بنت علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← عبد اللہ، لیے؛ تزئینی تبدیلیاں
Shuaib-bot (تبادلۂ خیال) کی 2875948ویں ترمیم کی جانب واپس پھیر دیا گیا۔ (پلک)
(ٹیگ: رد ترمیم)
سطر 1:
{{متنازع}}
{{صندوق معلومات شخص
|سابقة تشريفية =
سطر 45 ⟵ 44:
 
{{فاطمہ بنت محمد}}
زینبِ صغریٰ المعروف " کنیّت ام کلثوم" [[علی بن ابی طالب]] اور [[فاطمہ بنت محمد]] کی چوتھی اولاد تھیں اور خلیفہ [[عونعمر بن جعفرخطاب]] کی زوجہ تھی۔ واقعۂ طف یعنی معرکۂ کربلائے معلّٰی میں بی بی زینب (الکبرے ٰ) کی دستِ راست تھیں۔ دربارِ یزید میں آپ کے خطبات تاریخی حیثیت رکتے ہیں۔
== شیعیت میں ==
وہ لوگ جن کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عظمت آل [[محمد]] کو گھٹائیں اور خود ساختہ حدیثوں کے ذریعہ اپنی خود ساختہ ہستیوں کو بلند کریں۔ انھوں نے ایک اور [[افسانہ]] گھڑا کہ حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے اپنی [[خلافت]] کے آخری دور میں [[17ھ]] میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی [[نواسی]] اور حضرت [[فاطمہ زہرا]] کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے عقد کیا تھا۔ تحقیق کی جائے تو یہ افسانہ ویسا ہی ہے جیسے اور دیگر افسانے وضع کیے گئے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ وضع رہے کہ [[20ھ]] میں حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] [[فوت]] ہوئے اس وقت ان کی [[عمر]] 63 [[سال]] بتائی جاتی ہے۔
 
چنانچہ اپنے اس دعوی کی تائید میں [[صحیح بخاری]] کتاب المغازی باب [[ام سلیط]] سے یہ [[حدیث]] پیش کرتے ہیں:
حدثنا یحی بن بکیر حدثنا الیلث عن یونس، عن اب شہاب، وقال ثعلبة بن أبی مالک: إن عمر بن خطاب قسم مروطا بین نساء أھل المدینة فبقی منھا مرط جید، فقال له بعض من عنده: یا أمیر المومنین أعط بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم التی عندک، یریدون أم کلثوم بنت علی۔
 
حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] جب [[مدینہ]] میں چادریں عورتوں میں تقسیم کر رہے تھے جب ایک [[چادر]] بچ رہی تو جو لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے(ان کا نام معلوم نہیں) یوں کہا:
 
امیر المومنین یہ چادر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی [[بیٹی]] کو دے دیجئے یعنی [[ام کلثوم بنت علی]]۔
 
جواب میں حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے کہا:
 
نہیں یہ میں ام سلیط کو دوں گا جنہوں نے [[احد]] میں زخمیوں کو [[پانی]] پلایا تھا۔<ref>تیسیر الباری [[صحیح بخاری]] اردو جلد 5، صفحہ 321</ref> [[مترجم]] نے عندک کے معنی یہ بتلاے کہ جو آپ کے پاس ہیں۔ اس روایت میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ ام کلثوم وہ جو [[زوجہ]] ہیں حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] کی یا آپ کی زوجہ ام کلثوم کو۔ اس عندک سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ جو چادر(عندک) آپ کے پاس ہے یعنی بچ گئی ہے وہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیجئے۔ اس روایت سے یہ بالکل واضح ہے ام کلثوم زوجہ حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نہیں ہو سکتی اس لیے کہ کسی کا سفارش کرنا یہ بتلا رہا ہے کہ حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] کو اس کا علم نہیں تھا کہ اپنی زوجہ ام کلثوم کو چادر کی ضرورت ہے اور یہ زوجہ تھیں تو حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] کے [[گھر]] کے حالات کا دوسرے کو کیسے علم؟۔ چنانچہ اس سفارش کے جواب میں حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے کہا: نہیں یہ میں ام سلیط کو دوں گا جنہوں نے احد میں زخمیوں کو پانی پلایا تھا۔ یہ پانی پلانا حضرت عمر کا چشم دید واقعہ نہیں ہو سکتا اس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے احد میں فرار اختیار کیا تھا اور دور ایک [[پہاڑ]] پر [[بکری]] کی طرح کود رہے تھے۔
 
کان یوم أحد ھزمنا ففرت حتی صعدت الجبل
 
[[عمر بن خطاب]] نے کہا کہ جب ہم کو احد کے دن ہزیمت اٹھانی پڑی تو ہم سب بھاگ گئے یہاں تک کہ میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ اس طرح اچھل کود رہا ہوں جیسے بکری کودتی ہے۔<ref>جامع البیان طبری جلد 4، صفحہ 193</ref><ref>تفسیر در منثور سیوطی جلد 2، صفحہ 88</ref><ref>کنز العمال جلد 2، صفحہ 376</ref>
 
حافظ ابوعمر معروف به [[ابن عبد البر]] قرطبی متوفی [[403ھ]] نے [[دو]] سلسلوں سے اس [[عقد]] والی [[روایت]] کو نقل کیا ہے۔<ref>[[الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب|استعیاب]] صفحہ 365، جلد 2</ref> اس [[کتاب]] کے علاوہ مکمل راویوں کے ساتھ اور کتابوں میں یہ [[حدیث]] نہیں ملی اس لیے صرف اس کتاب کے راویوں پر تبصرہ کرنا مناسب ہے۔
 
پہلی روایت یوں ہے:۔
 
حدثنا عبدالوارث حدثنا قاسم حدثنا الخشني حدثنا أبی عمر حدثنا سفيان عن عمرو بن دینار عن محمد بن علی أن عمر بن الخطاب خطب إلی علی ابنته أم کلثوم فذکر له صغرها فقیل له:
 
إنه ردک فعاودہ فقال له علی:
 
أبعث بھا إلیک فان رضیت فھی امراتک فارسل بھا إلیه فکشف عن ساقھا فقالت:
 
مه واللہ لولا أنک أمیر المومنین للطمت عینک۔
 
ترجمہ: [[عمر بن خطاب]] نے [[علی]] سے ان کی [[بیٹی]] ام کلثوم کا [[رشتہ]] طلب کیا تو انھوں نے فرمایا:
 
کہ وہ ابھی چھوٹی ہیں۔
 
تو ان سے کہا گیا:
 
کہ [[علی]] علیہ السلام نے رشتہ مسترد کر دیا ہے تم دوبارہ رجوع کرو۔
 
[[علی]] علیہ السلام نے فرمایا:
 
میں انھیں تمہارے پاس بھیجتا ہوں اگر وہ راضی ہو جائیں تو تم انھیں اپنی [[بیوی]] بنا لو۔
 
[[علی]] علیہ السلام نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تو انھوں نے ان کی [[پنڈلی]] کو [[برہنہ]] کر دیا۔
 
ام کلثوم نے کہا:
 
رک جاؤ اگر تم امیر المومنین نہ ہوتے تو میں تمہاری [[آنکھ]] پر [[تھپڑ]] مارتی۔
 
دوسری روایت یوں ہے:
 
و ذکر ابن وھب عن عبدالرحمن بن زید بن أسلم عن أبیه عن جدہ أن عمر بن الخطاب تزوج أم کلثوم بنت علی بن ابی طالب علی مھر أربعین ألفاً۔
 
ترجمہ: یہ کہ [[عمر بن خطاب]] نے ام کلثوم بنت علی سے [[عقد]] کیا [[چالیس ہزار]] [[مہر]] کے عوض۔
 
اًبو عمر: ولدت أم کلثوم بنت علی لعمر بن الخطاب زید بن عمر الأکبر و رقیة بنت عمر و توفیت أم کلثوم و ابنھا زید فی وقت واحد و قد کان زید أصیبفی حرب کانت بین بنی عدی لیلاً کان قد خرج لی صلح بینھم فضربه رجل منھم فی الظلمة فشجه و صرعه فعاش أیاماً ثم مات وھو وأمه فی وقت واحد وصلی علیھما ابن عمر قدمه الحسن بن علی و کانت فیھما سنتان فیما ذکرو الم یورث واحد منھما من صا حبه لأنه لم یعرف أولھما موتاً و قد زید قبل أمه مما یلی الامام۔
 
ترجمہ: ام کلثوم بنت علی نے [[جنم]] دیا [[عمر ابن خطاب]] سے زید بن عمر اکبر اور رقیہ بنت عمر کو۔ اور ام کلثوم اور ان کا [[بیٹا]] زید ایک ہی وقت میں [[وفات]] پا گئے۔ زید کو ایک [[جنگ]] میں [[زخم]] لگے جو [[بنی عدی]] کے درمیان ہوئی [[رات]] کے وقت وہ اس لیے نکلے تھے کہ ان کے درمیان [[صلح]] کرائیں۔ ایک [[شخص]] نے اندھیرے میں انھیں مارا اور ان کے [[سر]] کو [[زمین]] پر پچھاڑ دیا۔ کچھ [[دن]] [[زندہ]] رہے اس کے بعد وہ اور ان کی والدہ ایک ہی دن انتقال کر گئے۔ اور [[عبد اللہ بن عمر|ابن عمر]] نے ان کی [[نماز جنازہ]] پڑھی، [[حسن بن علی]] نے انھیں آگے بڑھا دیا۔
مبصرین اور [[نقاد]] نے کسی بھی روایت کی صداقت لے لیے [[علم الرجال]] سے اس روایت کے راویوں کی تحقیق کرنا اہم جانا ہے۔
 
[[علامہ]] [[شمس الدین الذہبی|ذہبی]] کی کتاب [[میزان الاعتدال]] راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں علم الرجال میں ایک مسلمہ بے نظیر کتاب ہے۔ لہذا اسی کتاب طبع دار المعارفتہ [[بیروت]] [[لبنان ]]کا سہارا لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:۔
 
پہلی روایت کے راوی ہیں عبد الوارث:
 
اس سلسلے میں 6 عبدالوارث کا تذکرہ کیا گیا ہے۔<ref>میزان الاعتدال، جلد 2، صفحہ 677 تا 678</ref>
 
1. پہلے عبدالوارث [[کوفی]] ہیں ان سے کسی قاسم کی روایت کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اور بظاہر یہ کہ ابوعمر جو اس روایت کے سلسلے میں ہیں۔ وہ [[قرطبہ]] کے رہنے والے تھے اور یہ [[یورپ]] میں واقع ہے ان کو اس عبدالوارث کی روایت نہیں پہنچ سکتی۔
 
2. دوسرے [[عبدالوارث بن سعید]]:
 
إلا أنه قدری متعصب لعنرو بن عبید و کان حماد بن زید ینھی المحدثین عن الحمل عنه للقدر۔
 
ترجمہ: یہ کہ یہ فرقہ [[قدری]] سے تھا اور [[متعصب]] تھا اور [[حماد بن زید]] محدثین کو تاکید کرتے تھے کہ ان سے کوئی روایت نہیں لینا اس لیے کہ یہ قدری ہے۔
 
3۔ تیسرے [[عبد الوارث بن صخر الحمصی]]:
 
مجھول یعنی ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
 
4۔ [[عبد الوارث بن غالب]]:
 
عن ثابت البنانی: لا یعرف و الخبر منکر
 
ان کو کوئی نہیں جانتا اور ان کی روایات سے انکار کیا جائے۔
 
5. [[عبدالوارث]]:
 
ضعفه الدار قطنی۔ قال الدار قطنی: یصع ھزا وقال الترمزی۔ عن البخاری: عبد الوارث منکر الحدیث۔ و قال ابن معین: مجھول والحدیث المذکور فرواہ مندل:
 
یعنی امام [[علی بن عمر دارقطنی|دار قطنی]] نے کہا ان کی روایات [[ضعیف]] ہیں اور [[امام ترمذی]] نے [[بخاری]] سے بیان کیا کہ عبدالوارث کی احادیث سے انکار ہے۔ اور ابن معین نے انہیں مجہول کہا ہے۔
 
6. چھٹے عبد الوارث ہیں:
 
قال الأزدی کا یکتب حدیثه:
 
لکھا ہے کہ ان کی بیان کردہ احادیث مت لکھو۔
 
راویان کی فہرست میں دوسرے قاسم ہیں ان کی ولدیت کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ اس لیے کچھ اس سلسلے میں تحقیق کرنے سے معذور ہیں مگر میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 368 تا 383 میں ہر نام کے ساتھ مجہول، منکر، کذاب یا خبیث لا یحتج به۔ لیس بال متین لکھا ہے۔
 
تیسرے اس فہرست میں الخشنی
 
الحسن بن یحیی الخشنی الدمشقی البلاطی: قال ابن معین: لیس بشىٌ قال النسائى ليس بثقة، قال الدار قطنى: متروك اخرجه ابن الجوزى فى الموضوعات۔<ref>میزان الاعتدال جلد 1، صفحہ 524 سلسلہ 1958</ref>مزید وضاحت درکار نہیں ہے۔
 
چوتھے اس فہرست میں ابن ابی عمر:
 
عمر بن ریاح أبوحفص العبدی البصری۔ وھو عمر بن أبی عمر العبدی: قال الفلاس: دجال=(Trash)، قال الدار قطنی: متروک الحدیث، وقال ابن عدی: الضعف على حديثه بین۔<ref>میزان الاعتدال جلد 3، صفحہ 194، سلسلہ 6109</ref>
 
پانچویں راوی ہیں۔
 
[[سفیان بن عیینہ|سفیان بن عينة]]: و کان یدلس(Fraud): مالک ابن عینة یخطی فی نحو۔<ref>میزان الاعتدال جلد 2، صفحہ 170، سلسلہ 6109</ref>
 
چھٹے راوی ہیں۔
 
عمرو بن دینار البصری: وھو مولی آل زبیر، قال احمد بن حنبل: ضعیف قال ابن معین: ذاھب یعنی متروک، وقال مرة: لیس بشئ وقال النسائی: ضعیف<ref>میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 259، سلسلہ 6366</ref>
یہ تھے پہلے سلسلہ روایت کے راویان۔ ایک بھی ان میں قابل قبول نہیں ہے۔
 
دوسری راویت کے راویان پر غور کریں۔
 
ابن وہب یعنی عبد اللہ بن وہب بن مسلم،<ref>میزان العتدال ج2 ص 521 سلسلہ 4677</ref>ان کی سال پیدائش [[125ھ]] ہے اور سال وفات [[197ھ]]۔ یہ اس موضوع حدیث کے راویان میں ہیں کہ [[رسول اللہ|محمد بن عبد اللہ]] نے بھول کر چار رکعت نماز کو کم کر دیا اور جب [[ذی الیدین]] نے تصدیق کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سجدہ سہو کیا۔ <ref>صحیح مسلم کتاب المساجد و المواضع جلد5 صفحہ 76</ref>۔ اور [[امام نووی]] نےشرح میں لکھا کہ ذی الیدین غزوہ بدر میں شہید ہو چکے تھے اس لیے یہ حدیث موضوع ہے۔
== مزید دیکھیے ==
* [[زینب بنت محمد]]