"مالوہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
بعض جزوی ترمیم ، حوالہ جات کا اضافہ
سطر 60:
 
== مالوہ میں مسلم حکمرانی ==
ما لوہ میں سن 624 میں راجہ بھوج اول کی حکمرانی قائم تھی۔ سن 712 ء میں سندھ کے محمد بن قاسم نے ہندوستان پرحکمرانی کا آغاز کیا اور سندھ کے حکمراں عبدالرحمن المروٹی نے صوبیدار حبیب بن مراکو فوج کے ساتھ بھیج کر مالوہ پر حکمرانی کیلئے اجین پرحملہ کردیا<ref>فتوح البلدان ۱۹۶</ref> ۔ اس وقت مالوہ (اجین ) میں سمراٹ و کرامادیہ کی حکمرانی تھی ۔ وکرمادیہ نے شکست محسوس کرتے ہوئے ہرجانہ ادائیگی پر صلح کرلی ۔
 
== مالوہ میں اقتدار کی تفصیل ==
سطر 131:
1555 ء میں سلطان ملک بایزید عرف باز بہادر کی آخری حکمرانی دہلی سلطنت کے ماتحت
 
جب سن 712 ء میں راجا رام دیو نے مالوہ پر اقتدار قائم کرلیا ۔ اس درمیان مصر سے اندور آکر سید سمان بوم نے مالوہ پر قابض رہ کر 70 سال تک حکمرانی کی ۔اس کے بعد مالوہ پر چوہان خاندان نے حکمرانی قائم کرلی ۔ راجا مالدیو چوہان کے دوران حکومت شیخ سلطان غزنوی نے حملہ کرکے مالوہ پر اقتدار قائم کرلیا ۔اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے علاؤالدین کی کمسنی کی وجہ سے اس کے دیوان دھرم راج نے حکمرانی قائم کرلی۔ بیس سال بعد جوان ہوجانے پر علاؤ الدین نے دھرم راج کو قتل کر کے اقتدار حاصل کرلیا ۔ علاؤالدین نے بیس سال تک مالوہ پر حکومت کی ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا کمال الدین بارہ سال تک حکمراں رہا ۔اس کے بعد راجا بیر سین نے اقتدار حاصل کرلیا ۔اس دور میں ایک پٹھان مالوہ آیااور کچھ مقامی لوگوں کی حمایت سے راجا کوشکار گاہ میں لے جا کر قتل کردیا اور جلال ا لدین نام سے خود سلطان (بادشاہ) بن گیا ۔ اس نے 22 سال حکومت کی اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا عالم شاہ نے حکمرانی کی۔ اس دوران راجہ بیرسین کے رشتہ دار کھڈک سین نے عالم شاہ کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ جمالیا ۔اس کے بعد راجا مکت سین نے مالوہ پر راج کیا ۔ اس دور میں دکن سے بہادر شاہ نامی ایک شخص نے حملہ کرکے سکت سیین کو مارکر برسراقتدار ہوگیا ۔ بہادر شاہ نے زبردست فوج بناکر دہلی پر ہی حملہ کردیا لیکن دہلی کے سلطان شہاب الدین غوری نے اسے ہراکر مالوہ پر قبضہ کرلیا ۔ اس سے قبل پرتھوی راج کو بھی شکست خوردہ ہونا پڑا تھا ۔ حقیقت میں مالوہ پر بیرونی مسلمانوں کے ذریعہ حملہ کر کے بار بار برسر اقتدار ہونے پر بیشتر وقت دہلی سلطانت کے ماتحت رہا ۔ بیچ بیچ میں ہندو راجا بھی برسر اقتدارہوتے رہے۔رہے<ref>سیر التاخرین،ص: ۳۰-۳۵</ref>۔
 
917 ء میں راجا بلہاڑی پر مارمالوہ کا مہاراجا ہوا ۔ برے بڑے راجا ، مہاراجا اس کا احترام کرتے تھے ۔ مالوہ پر پرمارکنبہ کا دبدبہ رہا ۔ 1010 ء میں پھر سے راجا بھوج پر مار (دوم) مالوہ پر برسر اقتدار ہوا ۔ 1055 ء میں کلیان کا راجا سومیشور (اول) مالوہ پرحملہ کر کے راجا بھوج کو ہراکر برسر اقتدار ہوگیا ۔ اس کنبہ کا آخری راجا دیوپال تھا ۔ 1233 ء میں سلطان التمش مالوہ پر حملہ کر کے فلسہ (اجینی) کو جیت کر دہلی چلا گیا ۔ 1280ء-1310ء تک راجا بھوج (سوم ) برسر اقتدار رہا۔ 1283 ء میں رتھمپور کے راجا حمیر نے مالوہ پر حملہ کیا جس سے ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ۔ 1305 ء میں راجا مہلک دیو اور اس کے وزیر کوکا نے مالوہ میں خود مختارحکومت قائم کرلی جو ناکام رہی ۔ مہلک دیو مالوہ کا آخری ہندو راجاتھا ۔
 
== مالوہ پر خلجی،ممالیک ، تغلق اور مغلوں کی حکمرانی ==
1305 ء میں ہی سلطان علاؤ الدین خلجی کے سپہ سالار عین الملک ملتانی نے مالوہ پرحملہ کر کے بلا مقابلہ جیت حاصل کرلی ۔ راجا مہلک مانڈو قلعہ میں مارا گیا اور مالوہ پھر سے دہلی سلطنت کے ماتحت ہوگیا۔علاؤ الدین خلجی نے مالوہ فتح کرنے کے بعد مالوہ میں اپنے صوبیدار تعینات کردیئے ۔  اپنے سپہ سالار ملک کافور کو دھارمیں تعینات کر کے حکمرانی قائم کرلی ۔ اس کے بعد مالوہ میں مغل حکومت پھیلتی گئی ۔ شہنشاہ تغلق نے دھار میں لال پتھر کا قلعہ بنوایا ۔ دھار شہر کے چاروں جانب دیواروں (فصیل) تعمیر کرائی۔ دہلی کے دولت آباد میں راجدھانی قائم کرنے کے دوران دھار کے قلعہ میں اپنا خزانہ جمع رکھا
 
شہنشاہ فیروز تغلق کے دور میں ملک نظام دھار کا صوبیدار مقرر ہوا، اس کے دور میں دہلی سلطنت کمزور ہونے لگی۔ غیاث الدین بلبن کے 1365ء-1387ء اور محمد بن فیروز شاہ تغلق کے دور 1389ء-1394ء تک مالوہ دہلی سلطنت کے ماتحت رہا ۔ 1390 ء میں دلاور خان غوری کو دھار کا صوبیدار مقرر کیا۔ اس وقت مالوہ کی راجدھانی دھارتھی۔ 30 جنوری 1394 ء کو شہنشاہ تغلق کی موت ہوگئی تو چھوٹا بیٹا محمود شاہ 23 مارچ 1394 ء کو برسر اقتدار ہوا ۔ اس دوران بھارت پرتیمور نے حملہ کر کے 18 ڈسمبر 1398 ء کو سلطان محمود کو شکست دے کر برخاست کردیا ۔ سلطان محمود فرار ہوکر دھار آگیا ۔ جہاں دلاور خاں غوری نے پناہ دی ۔ 1401 ء تک برخاست سلطان محمود دھار میں رہتا رہا ۔ کچھ عرصہ بعد سلطان محمود دھار سے چلا گیا ۔ 1401 ء میں دلاور خان غوری نے دھار پرخود مختار حکومت قائم کر کے عمیدہ شاہ نام سے 1406 ء تک حاکم رہ کر دہلی سلطنت سے آزاد رہا ۔ 1562 ء میں مغلوں کے حملے کے بعد مالوہ دوبارہ دہلی سلطنت کا صوبہ بن گیا جو مغلیہ سلطنت کے برخاست ہوجانے پر مراٹھوں کے قبضہ میں چلاگیا اور مراٹھوں کا اقتدار قائم ہوجانے پر مالوہ مختلف صوبوں میں تقسیم ہوگیا۔ہوگیا<ref>تاریخ مالوہ ۲۹۴-۲۹۶</ref>۔
 
 
 
== مالوہ کی تہذیب ==
 
مالوہ سلطنت میں ہندی اور سنسکرت زبان کا رواج تھا جبکہ فارسی سرکاری زبان تھی ۔ سلطان محمود خلجی (اول) ہندی زبان کا بڑا عالم تھا ۔ 1439 ء میں اس کے ذریعہ تصنیف کردہ ’’جین کلپ سوتربدھی ساگر ‘‘ نامی سنسکرت میں شائع کتاب بہت مشہور ہے۔ مالوہ کے حکمرانوں کے ذریعہ مانڈو میں شاندار عمارات کی تعمیر کی گئی جس میں جہاز محل ، باز بہادر رانی روپ متی کا محل ، چیرائتی خاں کا محل ، نیل کنٹھ محل ، مسجد کمال مولا ہیں جبکہ اجین میں کالیا دیہہ محل، سادل پور کے محل ، بھیڑیا کا جین مندر مشہورہے۔
<br />
 
== باز بہادر اور رانی روپ متی کی داستان ==
سطر 153 ⟵ 149:
 
روپ متی کے کنبہ کو باز بہادر نے بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ رانی نے مانڈو کے اپنے رہائشی محل کے نیچے اپنی ماں ریوا کے نام پر تالاب بنوایا جس کا نام ریواکنڈ ہے ۔ ساتھ ہی ایک شیو مند بھی بنوایا ۔ قریب میں روپ متی چھتری نصب کی جہاں سے روپ متی نرمدا کا دیدار کرتی تھی۔
<br />
 
== سارنگ پور میں رانی روپ متی کا مقبرہ ==
1562 ء میں اکبر کے سپہ سالار رادھم خاں کوکا نے سارنگ پور میں باز بہادر کو شکست دی۔ باز بہادر نے حکم دیا کہ حرم سرا کی تمام خواتین قتل کردی جائیں تاکہ مغلوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں اور خود فرار ہوگیا لیکن مغل فوج نے روپ متی کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ ادھم خاں نے اس سے شادی کرنا چاہی تو روپ متی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی<ref>تاریخ فرشتہ۲/۷۹۲</ref> ۔ 1562 ء میں شہنشاہ ا کبر مالوہ آیا تو اس واقعہ پر اس نے بہت افسوس ظاہر کیا اور روپ متی کی لاش کو قبر سے نکلواکر ہاتھی پر رکھ کر شاہی اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کر کے مقبرہ بنوایا ۔ سارنگ پور میں رانی روپ متی کا مقبرہ آج بھی موجود ہے ۔ 1570 ء میں باز بہادر نے اکبر کے دربار میں خود سپردگی کردی ۔ اکبر نے معافی دیتے ہوئے اعزاز یاب کیاکیااور دو ہزاری منصب سے نوازا<ref>تاریخ فرشتہ ۲/۷۹۵</ref>۔ 1588 ء میں باز بہادر کی موت ہونے پر اس کی وصیت کے مطابق باز بہادر کی لاش آگرہ سے لاکر سارنگ پور میں روپ متی کے پہلو میں دفن کردی گئی۔
<br />
 
سطر 170 ⟵ 165:
[[زمرہ:جغرافیہ مدھیہ پردیش]]
[[زمرہ:قدرتی علاقہ جات]]
<br />
مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی از مولانا قاضی عبد القدوس دیپالپوری