"مالوہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← 0، 9، ہو گئی، ۔، 4، 7، 5، راجا، کر لیا، 6، کر دیے، کر دیا، علاؤ الدین، بر سر اقتدار، کے لیے، 2، 1، ہو گیا، متنازع، \1 رہے، 3؛ تزئینی تبدیلیاں
مالوہ اور اسلام، موسم آب و ہوا ، طرز حکومت کا اضافہ اور کچھ زوائد کا حذف
سطر 56:
'''مالوہ''' (Malwa) وسطی شمالی ہندوستان کا ایک قدرتی خطہ ہے جو ایک [[آتش فشاں|آتش فشانی]] [[سطح مرتفع]] پر واقع ہے۔ [[ارضیات]]ی طور پر مالوہ سے مراد [[وندھیہ سلسلہ کوہ]] کی [[آتش فشاں|آتش فشانی]] [[سطح مرتفع]] ہے۔ سیاسی اور انتظامی طور تاریخی خطہ مالوہ مغربی [[مدھیہ پردیش]] کے اضلاع اور جنوب مشرقی [[راجستھان]] کے حصوں پر مشتمل ہے۔
 
== مالوہ کا اطلاق اور اس کے حدود اربعہ ==
== سن 624ء میں مالوہ کا رقبہ ==
ہندو ماخذو ں میں مالوہ کا اطلاق شمال و جنوب میں کوہ بندھیا چل سے لے کر چتوڑا اور مکندرا پہاڑوں تک ہے ، جب کے مشرق و مغرب میں بھوپال سے دو حد{داہود} تک ہے، اس کی تایید مالوہ کی قدرتی حدود سے بھی ہوتی ہے؛ چنانچہ ان حدود کے اندر پہاڑوں کی نوعیت یکساں ہے ، اور کسی جگہ بھی اس علاقہ کی بلندی اور حالت ظاہری میں فرق نہیں آیا ہے، شاہان دہلی اپنی سہولت ور رواج کے بموجب زیادہ تر صوبوں کا تعین کر دیتے تھے ، ان کی وسیع عملداری صوبوں میں تقسیم تھی جن کا حاکم اعلی صوبہ دار یا نائب بادشاہ ہوتا تھا، اور اس کے زیر حکومت کل علاقہ کو صوبہ کہتے تھے ؛ لہذا صوبہ ایک سیاسی نام تھا نہ کہ جغرافیائی<ref>تاریخ وسط ہند:۱/۲ سر جان میلکم</ref> اس لئے مالوہ خاص اس سطح مرتفع کو کہ سکتے ہیں جو عموما کشادہ اور نہایت زرخیز ہے ؛ البتہ اس میں جگہ بہ جگہ مخروطی اور چوڑی چوٹیوں کی پہاڑیاں اور پست قامت پہاڑیوں کے سلسلہ ہیں ، اور اس کو متعدد دریا اور چھوٹی چھوٹی ندیا سیراب کرتی ہیں<ref>تاریخ وسط ہند</ref>
سن 624 ء میں مالوہ بھارت کی پندرھویں صدی کی سب سے بڑی آزاد سلطنت تھی جو اجمیر ،کالپی ، بیانہ ، چندیری ، رائے پور ، رتن پور ، سرگوجہ ، بیراگڈھ ، جونپور، بگلانا ، علیج پور، کوہ ست پورہ ، دوہد، بانسواڑہ ، کٹھال (پرتاپ گڑھ) ، مند سور، ساگر، اوجین ، بھیلسہ (ودیشہ) رائسین، گوالیار، جونا گڑھ ، تک پھیلی ہوئی تھی لیکن مالوہ دہلی سلطنت کے تحت ہی تھا۔ رتھمپور ، مندسور، سارنگپور، بھیلسہ، ہوشنگ آباد، شادی آباد ، جھانڈو ، دھار ، نایچہ ، وغیرہ ریاستوں میں سلطنت کی اہم چوکیاں قائم تھیں۔
 
== مالوہ میںاور مسلم حکمرانیاسلام ==
{۱} محمد بن قاسم کے حملہ{۹۳ھ م ۶۱۲ء} کے بعد جنید بن عبدالرحمن المری والی سندھ نے حبیب ابن  مرہ کی سالاری میں ایک دستہ مالوہ کی طرف بھیجا جو مشہور تاریخی شہر بکر ماجیت کی راجدھانی اذین {اجین} تک پہنچا اور صلح و فتح کے بعد یہ قافلہ یہاں سے واپس ہو گیا<ref>فتوح البلدان:۱/۴۲۵ط دار و مکتبہ ہلال ،بیروت</ref>
ما لوہ میں سن 624 میں راجا بھوج اول کی حکمرانی قائم تھی۔ سن 712 ء میں سندھ کے محمد بن قاسم نے ہندوستان پرحکمرانی کا آغاز کیا اور سندھ کے حکمراں عبدالرحمن المروٹی نے صوبیدار حبیب بن مراکو فوج کے ساتھ بھیج کر مالوہ پر حکمرانی کے لیے اجین پرحملہ کر دیا<ref>فتوح البلدان 196</ref> ۔ اس وقت مالوہ (اجین ) میں سمراٹ و کرامادیہ کی حکمرانی تھی ۔ وکرمادیہ نے شکست محسوس کرتے ہوئے ہرجانہ ادائیگی پر صلح کرلی ۔
 
{۲} حبیب ابن مرہ کے بعد صوبہ مالوہ میں مسلمان سیاحوں میں سب سے پہلے مشہورعالم سیاح و مورخ علامہ مسعودی کی آمد کا ثبوت ملتا ہے، جس وقت علامہ مسعودی مالوہ میں فروکش ہوئے وہ زمانہ راجہ بلہرا {۳۰۶ھ م ۹۱۷ء} حاکم مالوہ کا تھا<ref>مروج الذہب للمسعودی</ref>
== مالوہ میں اقتدار کی تفصیل ==
 
{۳}مسعودی کی رحلت یا سیاحت ہند کے کچھ عرصہ بعد چالیس مرادن حق اور عاشقان خدا کا ایک قافلہ ملک مالوہ کے تاریخی شہر دھار کی گھاٹیوں میں رات میں اترا صبح سویرے جب غلغہ اذان بلند ہواتو باشندگان شہر پر یہ صدا بجلی بن کر گری جس کے نتیجہ میں وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور اسلام کے ان سچے عاشقوں کو شہید کردیا۔
 
{۴} مسعودی کے تقریبا ۱۲۵ سال بعد ۴۴۱ھ میں سرتاج ابدالاں حضرت عبداللہ چنگال راجہ بھوج کی راجدھانی دھارا نگرمیں جلوہ افروز ہوئے ، اور اس خطے کو ایمانی شعاعوں سے منور فرمایا<ref>تاریخ مالوہ:۲۹۴-۲۹۶</ref>۔
مالوہ میں اقتدار کی تفصیل اس طرح رہی :
 
{۵} پھر سلطان سما بوم مصری افواج قاہرہ کے ساتھ زبردست لشکر لے کر مالوہ آئے ، اس وقت راجہ رام دیو مانڈو کا راج تھا ، باہمی سخت مقابلہ ہوا اس معرکہ جنگ میں بالآخر راجہ کو شکست فاش ہوئی ، مانڈو پر سید سلطان بوم مصری کا قبضہ ہوا اور ستر برس تک اس پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔
 
{۶} پھر چوہان خاندان بر سر اقتدار آیا ، مالو دیو چوہان کے دور میں شیخ سلطان غزنوی نے مغرب سے آکر مالوہ فتح کیا ، اور انہوں نے بھی ستر سال حکومت کی ، ان کے مرنے کے بعد ان کے لڑکے علاوالدین کی کم سنی و نابالغی کی وجہ سے ان کا وزیر دحرم راج نے مختار کل بن کر زمام اقتدار ہاتھ میں لے لی ، جب علاوالدین بالغ ہوا تو کشمکش کا آغاز ہوا ۲۰ سال کی حکمرانی کے بعد دھرم راج لڑائی میں مارا گیا، اور سلطان علاو الدین تخت نشین ہوا ، ۲۰ سال حکومت کے بعد جب اس نے رحلت کی تو اس کا لڑکا سلطان کمال الدین مسند نشین مالوہ ہوا ، ۱۲ سال حکمرانی کے بعد سلطان کما الدین جیت مل چوہان کے ہاتھوں قتل ہوا اور جیت مل راجہ بن گیا۔
 
{۷} پھر راجہ بیر سین کے دور حکومت میں ایک افغان مالوہ آیا اور س نے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر راجہ کو شکار گاہ میں ختم کیا اور جلال الدین لقب اختیار کرکے ۲۲ سال تک مالوہ پر داد حکمرانی دی ، اس کے بعد اس کا لڑکا سلطان عالم شاہ تخت نشین مالوہ ہوا ، راجہ بیر سین نے اپنے لڑکے کی شادی راجہ کامرو کے یہاں کی تھی جس نے کھڑک سین کو اپنا ولیعہد بنایا تھا ، راجہ کامرو کے بعد کھڑک سین نے مالوہ پر چڑھائی کی ، اور سلطان اعظم شاہ کو قتل کرکے اپنا کھویاہوا ملک پھر سے حاصل کر لیا۔
 
{۸} راجہ مکت سنگھ کے زمانہ میں دکن سے بہادر شاہ نامی ایک شخص حملہ آور ہوا ، سکت سنگھ اس جنگ میں مارا گیا اور بہادر شاہ مذکور خود مختار بن بیٹھا ، چند ماہ حکومت کرنے اور طاقت فراہم کرنے کے بعد اس نے دہلی پر دھاوا بول دیا ، اس وقت سلطان شہاب الدین غوری نے بہادر شاہ کو گرفتار کیا اور مالوہ پر اپنا قبضہ جما لیا، یہ واقعہ رائے پتھورا کی شکست کے بعد کا ہے<ref>سیر المتاخرین: ۳۰-۳۵، ہندوستان اسلام کے سایہ میں ۲۲۴-۲۲۷</ref>۔
 
== شاہان مالوہ ==
<nowiki>*</nowiki>  سن 624 ء میں راجا بھوج (اول) کی آزاد حکومت
 
سطر 130 ⟵ 140:
 
1555 ء میں سلطان ملک بایزید عرف باز بہادر کی آخری حکمرانی دہلی سلطنت کے ماتحت
 
جب سن 712 ء میں راجا رام دیو نے مالوہ پر اقتدار قائم کر لیا ۔ اس درمیان مصر سے اندور آکر سید سمان بوم نے مالوہ پر قابض رہ کر 70 سال تک حکمرانی کی۔اس کے بعد مالوہ پر چوہان خاندان نے حکمرانی قائم کرلی ۔ راجا مالدیو چوہان کے دوران حکومت شیخ سلطان غزنوی نے حملہ کرکے مالوہ پر اقتدار قائم کر لیا۔اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے علاؤ الدین کی کمسنی کی وجہ سے اس کے دیوان دھرم راج نے حکمرانی قائم کرلی۔ بیس سال بعد جوان ہوجانے پر علاؤ الدین نے دھرم راج کو قتل کر کے اقتدار حاصل کر لیا ۔ علاؤ الدین نے بیس سال تک مالوہ پر حکومت کی ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا کمال الدین بارہ سال تک حکمراں رہا۔اس کے بعد راجا بیر سین نے اقتدار حاصل کر لیا۔اس دور میں ایک پٹھان مالوہ آیااور کچھ مقامی لوگوں کی حمایت سے راجا کوشکار گاہ میں لے جا کر قتل کر دیا اور جلال ا لدین نام سے خود سلطان (بادشاہ) بن گیا ۔ اس نے 22 سال حکومت کی اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا عالم شاہ نے حکمرانی کی۔ اس دوران راجا بیرسین کے رشتہ دار کھڈک سین نے عالم شاہ کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔اس کے بعد راجا مکت سین نے مالوہ پر راج کیا ۔ اس دور میں دکن سے بہادر شاہ نامی ایک شخص نے حملہ کرکے سکت سیین کو مارکر بر سر اقتدار ہو گیا ۔ بہادر شاہ نے زبردست فوج بناکر دہلی پر ہی حملہ کر دیا لیکن دہلی کے سلطان شہاب الدین غوری نے اسے ہراکر مالوہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس سے قبل پرتھوی راج کو بھی شکست خوردہ ہونا پڑا تھا ۔ حقیقت میں مالوہ پر بیرونی مسلمانوں کے ذریعہ حملہ کر کے بار بار بر سر اقتدار ہونے پر بیشتر وقت دہلی سلطانت کے ماتحت رہا ۔ بیچ بیچ میں ہندو راجا بھی برسر اقتدارہوتے رہے<ref>سیر التاخرین،ص: 30-35</ref>۔
 
917 ء میں راجا بلہاڑی پر مارمالوہ کا مہاراجا ہوا ۔ برے بڑے راجا ، مہاراجا اس کا احترام کرتے تھے ۔ مالوہ پر پرمارکنبہ کا دبدبہ رہا ۔ 1010 ء میں پھر سے راجا بھوج پر مار (دوم) مالوہ پر بر سر اقتدار ہوا ۔ 1055 ء میں کلیان کا راجا سومیشور (اول) مالوہ پرحملہ کر کے راجا بھوج کو ہراکر بر سر اقتدار ہو گیا ۔ اس کنبہ کا آخری راجا دیوپال تھا ۔ 1233 ء میں سلطان التمش مالوہ پر حملہ کر کے فلسہ (اجینی) کو جیت کر دہلی چلا گیا ۔ 1280ء-1310ء تک راجا بھوج (سوم ) بر سر اقتدار رہا۔ 1283 ء میں رتھمپور کے راجا حمیر نے مالوہ پر حملہ کیا جس سے ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۔ 1305 ء میں راجا مہلک دیو اور اس کے وزیر کوکا نے مالوہ میں خود مختارحکومت قائم کرلی جو ناکام رہی ۔ مہلک دیو مالوہ کا آخری ہندو راجاتھا ۔
 
== مالوہ پر خلجی،ممالیک ، تغلق اور مغلوں کی حکمرانی ==
سطر 139 ⟵ 145:
 
شہنشاہ فیروز تغلق کے دور میں ملک نظام دھار کا صوبیدار مقرر ہوا، اس کے دور میں دہلی سلطنت کمزور ہونے لگی۔ غیاث الدین بلبن کے 1365ء-1387ء اور محمد بن فیروز شاہ تغلق کے دور 1389ء-1394ء تک مالوہ دہلی سلطنت کے ماتحت رہا ۔ 1390 ء میں دلاور خان غوری کو دھار کا صوبیدار مقرر کیا۔ اس وقت مالوہ کی راجدھانی دھارتھی۔ 30 جنوری 1394 ء کو شہنشاہ تغلق کی موت ہو گئی تو چھوٹا بیٹا محمود شاہ 23 مارچ 1394 ء کو بر سر اقتدار ہوا ۔ اس دوران بھارت پرتیمور نے حملہ کر کے 18 ڈسمبر 1398 ء کو سلطان محمود کو شکست دے کر برخاست کر دیا ۔ سلطان محمود فرار ہوکر دھار آگیا ۔ جہاں دلاور خاں غوری نے پناہ دی ۔ 1401 ء تک برخاست سلطان محمود دھار میں رہتا رہا ۔ کچھ عرصہ بعد سلطان محمود دھار سے چلا گیا ۔ 1401 ء میں دلاور خان غوری نے دھار پرخود مختار حکومت قائم کر کے عمیدہ شاہ نام سے 1406 ء تک حاکم رہ کر دہلی سلطنت سے آزاد رہا ۔ 1562 ء میں مغلوں کے حملے کے بعد مالوہ دوبارہ دہلی سلطنت کا صوبہ بن گیا جو مغلیہ سلطنت کے برخاست ہوجانے پر مراٹھوں کے قبضہ میں چلاگیا اور مراٹھوں کا اقتدار قائم ہوجانے پر مالوہ مختلف صوبوں میں تقسیم ہو گیا<ref>تاریخ مالوہ 294-296</ref>۔
== مالوہ کی تہذیب ==
 
== طرز حکومت ==
مالوہ سلطنت میں ہندی اور سنسکرت زبان کا رواج تھا جبکہ فارسی سرکاری زبان تھی ۔ سلطان محمود خلجی (اول) ہندی زبان کا بڑا عالم تھا ۔ 1439 ء میں اس کے ذریعہ تصنیف کردہ ’’جین کلپ سوتربدھی ساگر ‘‘ نامی سنسکرت میں شائع کتاب بہت مشہور ہے۔ مالوہ کے حکمرانوں کے ذریعہ مانڈو میں شاندار عمارات کی تعمیر کی گئی جس میں جہاز محل ، باز بہادر رانی روپ متی کا محل ، چیرائتی خاں کا محل ، نیل کنٹھ محل ، مسجد کمال مولا ہیں جبکہ اجین میں کالیا دیہہ محل، سادل پور کے محل ، بھیڑیا کا جین مندر مشہو رہے۔
مالوہ ایک مدت تک دہلی سلطنت کا ایک صوبہ تھا اس لئے خود مختاری کے دور میں بھی یہاں کا طرز حکومت دہلی کی طرح تھا،مالوہ کا سلطان بھی مطلق العنان ہوا کرتا تھا ، اپنی مشاورت کے لئے امرا٫ و وزرا کا تقرر کرتا ، جو امور سلطنت میں اس کے معاون ہوتے، جن درباروں میں رعایا کو بھی آنے کی اجازت ہوتی انہیں "دربارعام" یا "مجلس عام "کہا جاتااور ایسے ہی درباروں میں ولیعہد کا اعلان ہوتا تھا، نیز سفارتی معاملات بھی ان ہی درباروں میں طے ہوتے تھے ، جنگ و صلح جیسے اہم امور کے لئے جو دربار منعقد ہوتا اسے "دربار خاص"کہتے ، اورجن درباروں میں صرف بادشاہ کے ذاتی امور انجام پاتے انہیں "محفل انس " کہا جاتا،سلطنت کے امور وزیر انجام دیتا جسے "عارض ممالک" کہاجاتا، مذہبی امور کا انتظام "شیخ الاسلام" کے ہاتھ میں ہوتے اور عدلیہ "قاضی " کے حوالہ تھا جس میں وہ آزاد تھا ، سب کا مختار اعلی سلطان ہوا کرتا،سلطان کے ذاتی عملہ میں حاجب، دبیر ، دولت دار ،اسیرآخور{اصطبل} میر شکار وغیرہ ہوتے تھے ، اس کے علاوہ ایک ذاتی حرم بھی ہوتا، امرائے سلطنت کے پانچ سو سے بیس ہزاری تک منصب ہوتے تھے، سلطنت کے امور میں علما٫ و مشائخ کا بڑا مقام تھا ، سلطان ہوشنگ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے مشورہ پر سلطنت انجام دیتا تھا، آپ کے خطوط "مکتوبات اشرفیہ" کے نام سے مشہور ہیں، اس کے بعد سلطان محمود خلجی بھی حضرت کے مکتوبات کے مطابق سلطنت انجام دیتا رہا اور سلطان غیاث الدین بھی اسی پر عمل کرتا رہا، سلطان ناصر الدین خلجی کی اپنے لڑکے محمود کو وصیت آپ ہی کے خطوط کے مطابق تھی<ref>مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی</ref>۔
 
== مالوہ کا موسم ، آب و ہوا اور پیداوار ==
== باز بہادر اور رانی روپ متی کی داستان ==
مالوہ میں موسم نہ صرف خوشگوار رہتا ہے بلکہ مقیاس الحرارۃ کا چڑھاو اتار غیر معمولی طور پر باکل خفیف ہوتاہے ، البتہ سال کے آخر دو مہینوں میں اچانک موسمی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں ، اور ہندوستان کے دیگر مقامات کی طرح اس صوبہ میں بھی موسم باراں کے بعد دو ماہ کے دوران میں تپ ولرزہ کی شکایت پیداہو جاتی ہے، لیکن جو حضرات ہندوستان کے نشیبی اور زیادہ گرم مقامات میں عرصہ دراز تک قیام کرنے کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں ، ان کے لئے مالوہ کی آب و ہوا نہایت خوشگوار اور صح بخش ہے ، مغربی ہندوستان کی طرح یہاں بھی برسات ، جاڑا اور گرمی تین موسم ہوتے ہیں ، جون ،جولائی ،اگست اور ستمبر کے مہینوں میں یہاں پر بارش عام طور پر ہلکی اور باققاعدہ ہوتی ہے ، اور معمولا بارش کا اوسط تقریبا ۵۰ انچ رہتا ہے، اگرچہ برسات ختم ہونے بعد ہی سے صبح کے وقت زیادۃ خنکی ہونے لگتی ہے ، لیکن دسمبر کے آخر تک موسم زیادہ سرد نہیں ہوتا ہے ، اور جنوری کے مہینہ اور فروری کے ایک حصہ تک سردی پڑتی رہتی ہے، گرمی کے موسم میں تمام ہندوستان کے شمال اور مغرب کی طرف سے نہایت گرم ہوا چلتی ہے س، لیکن اس صوبہ میں گرمی معمولی ہوتی ہے، اور صرف چند روز تک پڑتی ہے، گرمی میں دن کے وقت مقیاس الحرارہ یہاں پر ۹۸ درجہ سے اونچا نہیں ہوتا، لیکن مالوہ کی راتیں موسم گرما میں بالعموم سرد اور خوش گوار ہوتی ہیں<ref>تاریخ وسط ہند</ref>
باز بہادر : دہلی سلطنت کے ماتحت شہنشاہ عادل شاہ نے 1542 ء میں شجاعت خاں کو مالوہ کا حاکم مقرر کیا ، اس وقت مالوہ کی حکمرانی سارنگ پور سے چلتی تھی ۔ شجاعت خاں نے اپنے تینوں لڑکوں میں ما لوہ کا اقتدار تقسیم کر دیا ۔ بڑے اور منجھلے کو اجین اور رائسین کا اقتدار دے دیا جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے ملک بایزید کو ہنڈیا اور آشٹہ کا اقتدار اور خود سارنگ پورمیں اقتدار سنبھال رکھا۔ 1554 ء میں شجاعت خاں کی موت ہوجانے پر ملک بایزید نے مقابلہ آرائی کر کے مالوہ پر خود مختاری قائم کر کے سارنگ پور سے مانڈو آکر رہنے لگا اور اپنا نام باز بہادر رکھا ۔
 
ابن بطوطہ لکھتا ہے : دھار میں گیہوں کی فصل خوب ہوتی ہے ، اور وہاں کے  پان  بڑے خوشبودار ، خوش ذائقہ  ہوتے ہیں ،  اور دہلی تک بھیجے جاتے ہیں ، خربوذوں کو بھی ذکر کیا ہے<ref>رحلۃ ابن بطوطہ</ref>
رانی روپ متی : رانی روپ متی باز بہادر کی رانی تھی جس کے بارے میں کئی متنازع کہانیاں ہیں بتایا جاتا ہے کہ روپ متی دھرم پوری (دھار) کے ایک راجپوت جاگیردار تھان سنگھ راٹھور کی بیٹی تھی ۔ باز بہادر شکار کے دوران نرمدا کنارے روپ متی کو دیکھ کر عاشق ہو گیا اور اس سے شادی کرلی۔د یگر داستانوں میں بتایا گیا ہے کہ روپ متی ایک گلوکارہ اور طوائف کی لڑکی تھی ۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ روپ متی بڑھو رائے اور ریوا رائے کی بیٹی تھی جو گجراتی برہمن تھے ۔ روپ متی 1538 ء میں سارنگ پور کے پھول پور میں پیدا ہوئی تھی ۔ وہ ایک گلوکارہ اور موسیقار تھی اور اپنی خوبصورتی کے سبب بہت مشہور ہوئی اور سارنگ پور سے مانڈو آکر رانی بن گئی ۔
 
ابو الفضل لکھتا ہے: مالوہ میں خریف اور ربیع دونوں فصلیں خوب پکتی ہیں ، یہاں پر گیہوں افیون، گنا، دھان ، مٹر ، کپاس ، جوار ، باجرہ ، چنا ، مونگ ، اڑد ، السی ، تلی اور نیل کی کاشت ہوتی ہے، آم خربوذہ اور انگور خوب پکتے ہیں<ref>آئین اکبری/اکبرنامہ</ref>
روپ متی کے کنبہ کو باز بہادر نے بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ رانی نے مانڈو کے اپنے رہائشی محل کے نیچے اپنی ماں ریوا کے نام پر تالاب بنوایا جس کا نام ریواکنڈ ہے ۔ ساتھ ہی ایک شیو مند بھی بنوایا ۔ قریب میں روپ متی چھتری نصب کی جہاں سے روپ متی نرمدا کا دیدار کرتی تھی۔
 
جہانگیر لکھتاہے: یہاں بارش کا موسم برا خوش گوار ہوتا ہے اور رات میں لحاف اوڑھنا پڑتا ہے ، آم کے بارے میں لکھتا ہے کہ : بڑے خوش ذائقہ ، رس دار اور بَیر ریشے کے ہوتے ہیں<ref>تزک جہانگیری</ref>
== سارنگ پور میں رانی روپ متی کا مقبرہ ==
1562 ء میں اکبر کے سپہ سالار رادھم خاں کوکا نے سارنگ پور میں باز بہادر کو شکست دی۔ باز بہادر نے حکم دیا کہ حرم سرا کی تمام خواتین قتل کردی جائیں تاکہ مغلوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں اور خود فرار ہو گیا لیکن مغل فوج نے روپ متی کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ ادھم خاں نے اس سے شادی کرنا چاہی تو روپ متی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی<ref>تاریخ فرشتہ2/792</ref> ۔ 1562 ء میں شہنشاہ ا کبر مالوہ آیا تو اس واقعہ پر اس نے بہت افسوس ظاہر کیا اور روپ متی کی لاش کو قبر سے نکلواکر ہاتھی پر رکھ کر شاہی اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کر کے مقبرہ بنوایا ۔ سارنگ پور میں رانی روپ متی کا مقبرہ آج بھی موجود ہے ۔ 1570 ء میں باز بہادر نے اکبر کے دربار میں خود سپردگی کردی ۔ اکبر نے معافی دیتے ہوئے اعزاز یاب کیااور دو ہزاری منصب سے نوازا<ref>تاریخ فرشتہ 2/795</ref>۔ 1588 ء میں باز بہادر کی موت ہونے پر اس کی وصیت کے مطابق باز بہادر کی لاش آگرہ سے لاکر سارنگ پور میں روپ متی کے پہلو میں دفن کردی گئی۔
<br />
 
== مالوہ کے خاص شہر ، قصبے  اور دار السلطنت ==
== مسجد کمال مولا / بھوج شالا : ==
اجین ، اندور ، دھار ، رتلام ، نولی یا بڑھ نگر ، کچروڈ{ کھاچرود} ادنیل ، منڈیسر ، جاور ، بام پورہ ، مناسا ، آگر ، شجاعلپور ، آشٹہ ، شاہجہاں پور {شاجاپور} ، دیواس ، ڈگ ، تال ، منڈاول ، ماہد پور ، سارنگ پور ، بھوپال ، دوحد{داہود} ، مانڈو{شادی آباد}<ref>تاریخ وسط ہند</ref>۔
دھار میں ایک بڑے صوفی سنت کمال مولا کے مقبرہ سے ملحق جامع مسجد ہے جو 1395 ء میں سلطان علاؤ الدین خلجی نے بنوائی تھی ۔ ہندو ادیب اس مسجد کو بھوج شالا بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ راجا بھوج کی سنسکرت کی پاٹھ شالا تھی اور یہاں سرسوتی دیوی کی مورتی تھی جو اب لندن کے میوزیم میں ہے۔<ref>https://archive.urdu.siasat.com/news/%D9%85%D8%BA%D9%84%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%A7%D9%84%D9%88%DB%81-837955/</ref>
 
گزشتہ ادوار میں اجین ، دھار ، مانڈو اور سارنگپور مختلف اوقات میں مالوہ کے پایہ تخت رہے۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
<br />