"ظہیر احسن شوق نیموی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: درستی املا ← دار العلوم، شعرا، درستی، ابتدا، لکھنؤ، علما، ایشیا، خط کتابت، معرکہ آرا؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 5:
 
== شعرو ادب ==
شوق نیموی فطرتاً شاعر تھے اور کم عمری میں ہی اشعار موزں کر لیا کرتے تھے، اپنی شعر گوئی کے حوالے سے اپنی خود نوشت''یادگار وطن'' میں ایک جگہ لکھتے ہیں :۔''لڑکپن میں خدا نے طبیعت ایسی موزں بنائی تھی کہ جب میں گلستاں ہی پڑھتا تھا تو فی البدیہہ شعر موزں کر لیتا تھا،مجھے خوب یاد ہے کہ بیت بازی کے مقابلے میں حریف سے کبھی شکست نہیں ہوئی،بارہا ایسا ہوا کہ حریف کو بھی کسی خاص حرف کے اشعار بہت یاد تھے ۔ جن کی وجہ سے مجھ کو دقت پڑتی، مگر جب استادکا کوئی شعریاد نہیں آتا تو نظم کرکے جواب دے دیتااور ان بے چاروں کو یہ وہم تک نہ ہوتاکہ یہ شعر اس کا طبع زاد ہے۔'' یہ سب صلاحیتیں شوق نیموی  میں اللہ نے ودیعت تو رکھی ہی تھیں۔ لیکن جب حصول علم کی غرض سے اس وقت کے علمی و ادبی مرکز لکھنولکھنؤ کا سفر کیا اور وہاں شمشاد لکھنوی اور تسلیم لکھنوی جیسے بڑے شعراءشعرا کی شاگردی اختیار کی تو ان کی اصلاح وتربیت نے شوق نیموی کے فن کو پختگی اور ادبی وشعری صلاحیت کو عروج و سر بلندی بخشنے کا کام کیا اور لکھنولکھنؤ قیام کے دوران ہی انھیں ایک قادر الکلام اور باکمال شاعروں کی صف میں شمارکیا جانے لگا ۔
 
== شوق نیموی اور مولانا آزاد ==
شوق نیموی کی شعری عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہم عصر اور نامور شعراءشعرا میں سے داغ دہلوی، تسلیم لکھنوی ، احسن مارہروی اور حسرت عظیم آبادی جیسے بڑے شاعروں نے بھی ان کی شعری خوبیوں کو سراہا۔ اور آزاد ہند کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد جیسی نابغہ روزگار شخصیت جن کی فکری بلندی اور بالیدہ ذوق کاہر شخص معترف ہے ۔ وہ بھی با ضابطہ طور پران سے شعر وسخن کی اصلاح لینے لگے اور نہ صرف شوق کی شاگردی اختیار کی بلکہ ان کی شاگردی پر فخر بھی کیاجس کا تذکرہ انھوں نے ''آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی'' میں ''شاعری میں شاگردی'' کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ ''اس زمانے میں ایسا ہوا کہ شاعری کے متعلق کتابوں کی جستجو میں رسالہ'' اصلاح ''اور ازاحۃ الاغلاط'' لکھنولکھنؤ سے منگوایا۔ یہ دونوں رسالے مولوی ظہیر احسن شوق نیموی کے تھے' اور فوائد متعلقہ ، شعر گوئی اور مبحث متروکات و تصحیح الفاظ میں بہت مفید ہیں۔ان رسالوں سے ان کی دیگر تصانیف کا حال معلوم ہوا ' اور پھر پٹنہ سے براہ راست انھیں لکھ کر تمام کتابیں منگوائیں۔ ان میں ''سرمہ تحقیق'' اور ''یادگار وطن'' بھی تھی۔ اس وقت جیسی طبیعت اور معاملات تھے ' اس کے لحاظ سے ان حالات کا بہت زیادہ اثر پڑا اور ان کی شاعرانہ واقفیت دل پر نقش ہو گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے ان سے خط و کتابت کی اور اصلاح لینا شروع کر دیا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بہت جی لگاکر اصلاح دیتے تھے اور بعض اوقات غزل کے ساتھ ایک ایک صفحے کے فوائد بھی' جن کا کچھ تعلق اشعار زیر اصلاح سے ہوتا تھا ' لکھتے تھے<ref> ''آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی ، ص 149,148''</ref> ''اس کے علاوہ شوق نیموی کے بیٹے مولانا عبد الرشید فوقانی کی ملاقات جب کلکتہ میں مولانا آزاد سے ہوئی تو انھوں نے اس کا تذکرہ ان کے سامنے بھی کیا''<ref>''کتاب'' القول الحسن ''ص170''</ref> ''شاعری میں مولانا آزاد کی شاگردی کے سلسلے میں مشہور اہل علم جناب مالک رام اپنے علمی مجلہ'' تحریر ''میں لکھتے ہیں :مولانا آزاد نے امیر مینائی مرحوم اور داغ مرحوم سے ابتداءابتدا میں اصلاح لی مگر اصلاح پسند نہ آئی تو ظہور میرٹھی سے جو نسبتاً کم معروف تھے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے، اس کے بعد تا آخر مشق سخن مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کے حلقئہ تلمذ میں داخل رہے''<ref>''مجلہ تحریر ، 1968'' </ref> ''۔یہ وہی مولانا آزاد ہیں جنہوں نے غبار خاطر میں ایک جگہ ذوق ؔکے اشعار کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار اس طور پر کیا کہ ذوقؔ کے اشعار میں ہم اپنا ذوق نہیں پاتے۔ گویا ذوقؔ کو خاطر میں نہ لانے والا شخص شوقؔ کی شاگردی پر فخر کر رہا ہے۔ شوق نیموی کے شاگردوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے ،اپنی خود نوشت یادگاروطن میں انھوں اپنے باضابطہ اور صاحب دیوان شعراءشعرا شاگردوں کی تعداد 17 شمار کی ہے ۔ آزاد کے علاوہ شوق کے شاگردوں میں ضیاء عظیم آبادی اور زبیر دہلوی جیسے بڑے شاعروں کا بھی نام آتا ہے۔ علامہ کاخود اپنے اشعارکے بارے میں واضح نقطئہ نظر یہ تھاکہ:''
 
''وہی اشعار جن میں لطف کچھ رہتا ہے رکھتے ہیں''
سطر 15:
 
== شوق نیموی سے علامہ محدث ظہیر احسن شوق نیموی تک ==
انھوں نے علم حدیث کے میدان میں بھی ایک بڑے حلقے کو متاثرکیا ہے اور فن حدیث میں ''آثار السنن'' جیسی لازوال اور بے مثال تصنیف چھوڑی جس نے اس وقت کے اکابرین اورمشائخ علماءعلما کو اپنا گرویدہ بنا لیا ؛چنانچہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ جن کا شمار ہندوستان کے مشہور عالموں میں ہوتا ہے اور خاص طور پر فن حدیث میں انھیں بڑا مقام حاصل ہے ، انھوں نے اپنی تصنیفات میں کثرت کے ساتھ علامہ نیموی کی تحقیقات تحریر کی ہیں اور بذل المجہود کی مستفاد کتابوں کی فہرست میں آثار السنن اور اس کی تعلیق کو بھی شمار کیا ہے ،مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنی کتاب اعلاء السنن میں جا بجا علامہ نیموی کی تحقیقات سے استفادہ کیا ہے اور بطور سند انھیں پیش کیا ہے،شیخ الحدیث مولانا زکریا سہارنپوریؒ نے جب مؤ طا امام مالک کی شرح اوجزالمسالک لکھی تو علامہ نیمویؒ کی تحریروں کو حوالے کے طور پر پیش کیا ،اسی طرح مولانا حکیم عبد الحئ لکھنویؒ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اورشیخ عبد الحق مہاجر مکی ؒ جیسے ماہرین علم حدیث کو انھوں نے اپنے تبحر علمی کا معترف کیا ، لیکن ان اکابرین کے علاوہ بھی ایک اور شخصیت جو علامہ شوق نیموی ؒ کی علمی صلاحیت سے سب سے زیادہ متا ثر ہوئی اور اس گوہر نایاب کی قدر و قیمت کا کھل کر اعتراف کیا وہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی ہے۔آخر جن کے نام میں شاہ لگا ہوا ہو' اور فن حدیث میں جن کی حیثیت جوہری کی ہو وہ اس گوہر نایاب کی قدر وقیمت کو نہ پہچانتے تو اور کون پہچانتا؟ جب کہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ ''قدرے گوہر شاہ داند یا بداند جوہری''۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے یہ اعتراف کیا کہ ''تین سو برس سے ہندوستان میں اس پایہ کا محدث پیدا نہیں ہوا'' یہی نہیں بلکہ علامہ انور شاہ کشمیری جب طلبہ کو درس حدیث دینے جاتے تھے تو بطور ریفرنس اور حوالہ علامہ شوق نیمویؒ کی آثار السنن کو ساتھ میں رکھتے تھے،انھوں نے شوق نیموی کی شان میں عربی زبان میں دو طویل قصیدے بھی لکھے ہیں جو آثار السنن کے اخیر میں مذکوربھی ہے، ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ عظیم آباد آکر علامہ شوق نیمویؒ سے ملاقات کرتے، لیکن قبل اس کے وہ آتے پیام اجل آپہنچا اور ان کی آرزو آرزو ہی رہ گئی ۔
 
== تصانیف ==
علامہ شوق نیموی نے اپنے44 سالہ مختصر سے عرصہ حیات میں بہت سی کار آمد ،مفید ،معلوماتی اور عمدہ تصانیف چھوڑی ہیں جو درج ذیل ہیں:
 
''ازاحۃ الاغلاط'' یہ فارسی زبان کا ایک مفید رسالہ ہے ،1893ء میں قومی پریس لکھنؤ سے شایع ہوا ۔
 
''اصلاح'' یہ اصلاح زبان کے حوالے سے لکھا گیا انتہائی مفید اور اہم رسالہ ہے اور اردو زبان وبیان کی درستگیدرستی کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے ، 1893ء میں قومی پریس لکھنؤ سے شایع ہوا ۔
 
''سرمہ تحقیق'' یہ رسالہ جلال لکھنوی کے اعتراضات کی رد میں لکھا گیا ہے ، 56صفحات پر مشتمل ہے۔
 
شعری مجموعہ ''دیوان شوق'' جو نور الہدی نیموی نے مرتب کیا جو ان کے انتقال کے بعد 1326ھ  میں مطبع سیدی پٹنہ سے شایع ہوا۔
 
''نغمہ راز'' یہ اردو زبان میں لکھی گئی، ایک پردرد مثنوی ہے ، جس پر قطعہ تاریخ ہندوستان کے مشہور شاعر امیرمینائی کا درج ہے ، یہ کتاب 38صفحات پر مشتمل ہے اور 1303ھ میں قومی پریس لکھنؤ سے چھپی۔
 
''سوزو گداز'' یہ شوق نیموی کی معرکۃمعرکہ الآراءآرا مثنوی ہے، جس پر قطعہ تاریخ مشہور شاعر داغ دہلوی نے لکھا ہے ، نظامی پریس پٹنہ سے 1312ھ میں چھپی ، 46صفحات پر مشتمل ہے۔
 
''یادگار وطن'' یہ شوق نیمی کی خود نوشت سوانح ہے۔
 
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی تصانیف ہیں جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور لوگوں نے ان تمام کتابوں کو پڑھ کر ان کی عظمت کا اقرار بھی کیا ہے، لیکن فن حدیث میں لکھی گئی ان کی تصنیف  آثار السنن کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے ، اس کتاب کے ما بہ الامتیازپر اگر ہم غور کریں تو اس کا سب سے بڑا امتیاز یہ نظر آتا ہے کہ علامہ شوق نیموی کا تحقیقی رنگ اس میں نمایاں ہے اور اسے پڑھ کر ان کی گراں قدر تحقیقات بلکہ ان کے صاحب رائے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ، متن کتاب میں 47 اور تعلیقات کی شمولیت کے ساتھ150مقامات پر علامہ شوق نیموی نے مضبوط دلائل کی روشنی میں 'قال النیموی' کے ذریعے اپنی رائے کا برملا اظہار کیا ہے اور ایسی نادر تحقیقات پیش کی ہیں جس پر متقدمین و متأخرین علماءعلما کی زبانیں خاموش نظر آتی ہیں ، گویا اس زاویے سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنی بعض تحقیقات میں موجد کی حیثیت رکھتے ہیں یقینایہ ان کی علمی صلاحیت کی واضح دلیل ہے اور اس کتاب کی عظمت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ علامہ شوق نیموی کی آثار السنن آج بھی مختلف مدارس اور دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر میں داخل نصاب ہے۔ اور ایشیاءایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دارالعلومدار العلوم دیوبند میں بھی نصاب کا حصہ رہی ہے ۔
 
== حوالہ جات ==