"ظہیر احسن شوق نیموی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← 3، 9، 4، کیے، 7، اور، 6، لیے، 2، کر دیا، 8، لکھنؤ، 1، علما، اس ک\1، 0، 5؛ تزئینی تبدیلیاں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 92:
"تذئیل در بیان تقبیل" {اردو} دو صفحات کے اس رسالہ میں علما وصلحاء کی دست بوسی کے جواز اوسر فضیلت کو ثابت کیا گیا ہے۔
 
"وسیلۃ العقبی فی احوال المرضی والموتی"{فارسی} 50 صفحات کی اس کتاب میں مرض اور موت کی حقیقت اس پر صبر ادویات محرمہ سے اجتناب ، انتقال روح عن الجسم ، کیفیت سماع موتی ، نوحہ وغیرہ پر بحث کی گئی ہے،یہ کتاب 1384ھ میں قومی پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ہوئی<ref>الشيخ ظهير أحسن شوق نيموي: حياته و آثاره في الحديث از: عتيق الرحمن</ref>۔
 
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی تصانیف ہیں جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور لوگوں نے ان تمام کتابوں کو پڑھ کر ان کی عظمت کا اقرار بھی کیا ہے، لیکن فن حدیث میں لکھی گئی ان کی تصنیف  آثار السنن کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے ، اس کتاب کے ما بہ الامتیازپر اگر ہم غور کریں تو اس کا سب سے بڑا امتیاز یہ نظر آتا ہے کہ علامہ شوق نیموی کا تحقیقی رنگ اس میں نمایاں ہے اور اسے پڑھ کر ان کی گراں قدر تحقیقات بلکہ ان کے صاحب رائے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ، متن کتاب میں 47 اور تعلیقات کی شمولیت کے ساتھ150مقامات پر علامہ شوق نیموی نے مضبوط دلائل کی روشنی میں 'قال النیموی' کے ذریعے اپنی رائے کا برملا اظہار کیا ہے اور ایسی نادر تحقیقات پیش کی ہیں جس پر متقدمین و متأخرین علما کی زبانیں خاموش نظر آتی ہیں ، گویا اس زاویے سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنی بعض تحقیقات میں موجد کی حیثیت رکھتے ہیں یقینایہ ان کی علمی صلاحیت کی واضح دلیل ہے اور اس کتاب کی عظمت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ علامہ شوق نیموی کی آثار السنن آج بھی مختلف مدارس اور دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر میں داخل نصاب ہے۔ اور ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند میں بھی نصاب کا حصہ رہی ہے ۔
اردو کی ادبی وشعری تصنیفات:
 
'''اردو کی ادبی وشعری تصنیفات:'''
''ازاحۃ الاغلاط'' یہ فارسی زبان کا ایک مفید رسالہ ہے ،1893ء میں قومی پریس لکھنؤ سے شایع ہوا ۔
 
''اصلاح"ازاحۃ الاغلاط"'' یہ اصلاحفارسی زبان کےکا حوالے سے لکھا گیا انتہائیایک مفید اور اہم رسالہ ہے اور اردو زبان وبیان کی درستی کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے ، 1893ء،1893ء میں قومی پریس لکھنؤ سے شایع ہوا ۔
 
''"اصلاح"'' یہ اصلاح زبان کے حوالے سے لکھا گیا انتہائی مفید اور اہم رسالہ ہے اور اردو زبان وبیان کی درستی کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے ، 1893ء میں قومی پریس لکھنؤ سے شایع ہوا ۔
''سرمہ تحقیق'' یہ رسالہ جلال لکھنوی کے اعتراضات کی رد میں لکھا گیا ہے ، 56صفحات پر مشتمل ہے۔
 
''"سرمہ تحقیق"'' یہ رسالہ جلال لکھنوی کے اعتراضات کی رد میں لکھا گیا ہے ، 56صفحات پر مشتمل ہے۔
شعری مجموعہ ''دیوان شوق'' جو نور الہدی نیموی نے مرتب کیا جو ان کے انتقال کے بعد 1326ھ  میں مطبع سیدی پٹنہ سے شایع ہوا۔
 
شعری مجموعہ "''دیوان شوق"'' جو نور الہدی نیموی نے مرتب کیا جو ان کے انتقال کے بعد 1326ھ  میں مطبع سیدی پٹنہ سے شایع ہوا۔
''نغمہ راز'' یہ اردو زبان میں لکھی گئی، ایک پردرد مثنوی ہے ، جس پر قطعہ تاریخ ہندوستان کے مشہور شاعر امیرمینائی کا درج ہے ، یہ کتاب 38صفحات پر مشتمل ہے اور 1303ھ میں قومی پریس لکھنؤ سے چھپی۔
 
''سوزو"نغمہ گدازراز"'' یہ شوقاردو نیمویزبان کیمیں معرکہلکھی آراگئی، ایک پردرد مثنوی ہے،ہے ، جس پر قطعہ تاریخ ہندوستان کے مشہور شاعر داغامیرمینائی دہلویکا نے لکھادرج ہے ، نظامییہ پریسکتاب پٹنہ38صفحات سےپر 1312ھمشتمل میںہے چھپیاور ،1303ھ 46صفحاتمیں پرقومی مشتملپریس لکھنؤ سے ہے۔چھپی۔
 
''"سوزو گداز"'' یہ شوق نیموی کی معرکہ آرا مثنوی ہے، جس پر قطعہ تاریخ مشہور شاعر داغ دہلوی نے لکھا ہے ، نظامی پریس پٹنہ سے 1312ھ میں چھپی ، 46صفحات پر مشتمل ہے۔
''یادگار وطن'' یہ شوق نیمی کی خود نوشت سوانح ہے۔
 
''"یادگار وطن"'' یہ شوق نیمی کی خود نوشت سوانح ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی تصانیف ہیں جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے اور لوگوں نے ان تمام کتابوں کو پڑھ کر ان کی عظمت کا اقرار بھی کیا ہے، لیکن فن حدیث میں لکھی گئی ان کی تصنیف  آثار السنن کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے ، اس کتاب کے ما بہ الامتیازپر اگر ہم غور کریں تو اس کا سب سے بڑا امتیاز یہ نظر آتا ہے کہ علامہ شوق نیموی کا تحقیقی رنگ اس میں نمایاں ہے اور اسے پڑھ کر ان کی گراں قدر تحقیقات بلکہ ان کے صاحب رائے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ، متن کتاب میں 47 اور تعلیقات کی شمولیت کے ساتھ150مقامات پر علامہ شوق نیموی نے مضبوط دلائل کی روشنی میں 'قال النیموی' کے ذریعے اپنی رائے کا برملا اظہار کیا ہے اور ایسی نادر تحقیقات پیش کی ہیں جس پر متقدمین و متأخرین علما کی زبانیں خاموش نظر آتی ہیں ، گویا اس زاویے سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اپنی بعض تحقیقات میں موجد کی حیثیت رکھتے ہیں یقینایہ ان کی علمی صلاحیت کی واضح دلیل ہے اور اس کتاب کی عظمت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ علامہ شوق نیموی کی آثار السنن آج بھی مختلف مدارس اور دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر میں داخل نصاب ہے۔ اور ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند میں بھی نصاب کا حصہ رہی ہے ۔
 
== حوالہ جات ==