111,622
ترامیم
(ستی) |
م (خودکار: درستی املا ← استعداد، معما، کی بجائے، کر دیا، راجا، ہو گئے، کیے، ہو گئی، کر لیا، کر لیں، کارروائی، ہو سکا، پروا، نشو و نما، دکھائی، ہو گیا، جو، مہاراجا) |
||
برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندووَں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی اور یہ رسم ستی کہلاتی تھی ۔ یہ نہیں معلوم
ایک روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈووَں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا ۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی ۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں ۔ اس لیے ہندووَں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتیں پوجا نہیں تھیں ۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانے ہماری نجات ہے ۔ عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ان کے ستی سے ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی ۔
== رواج ==
ستی کے معنیٰ صادقہ کے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کلمہ ایسی عورت کو کہا جانے لگا جو شوہر کی وفادار ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ستی ہوجائے ۔ ستی ہونا عورت کی پاکیزگی کا اعلیٰ معیار ہندووَں میں بن گیا تھا ۔ اس کے قصے اور مثالیں عام تھیں اور سیتا اور ساوتری کہانیاں مشہور تھین ۔ پرانوں کے قصوں میں دانستہ عورت کو ستی کرنے کی مثالیں ہیں ۔ مگر پھر بھی اس رسم کا رواج
کسی عورت کو ستی ہوتے ہوئے دیکھنا طبعیت پر سخت گراں گزرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل پر گہرا صدمہ کے ساتھ ستی ہونے والی عورت کی عظمت ، استقلال اور تحمل پر حیرت ہوتی تھی ۔ ستی سے پہلے عورت اپنی ذاتی اشیاء اپنے عزیزوں تقسیم کرنے اور لوگوں سے الوداعی سلام و دعا اور اس کی تعظم و احترام کرنے کا منظر ۔ ستی ہونے والی عورت کا طرار پن دیکھ کر دیکھنے والوں کی عجیب حالت ہوجاتی تھی کہ ایک نرم مزاج عورت ایک فرسودہ رسم کی بدولت اپنی جان جس طرح دیتی تھی اس سے بڑے بڑے حب الوطن لڑائیوں میں مرنے والے بھی اس کے آگے ہیچ ہیں ۔
انگریزوں کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد بیوہ کو جو ذلت آمیز زندگی گزانی پڑتی تھی اسی لیے بھی عورتیں ستی ہونا پسند کرتی تھیں ۔ عورتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی جاتی تھی کہ ان کے ستی ہونے سے شوہر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ سرگ میں شوہر کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی ۔ وہ اسی امید پر کہ اسے اور اس کے شوہر کو سرگ کی لذتین عیش و آرام نصیب ہوں گے خوشی خوشی جل جاتی تھی ۔ بنگال میں ایک ستی کے موقع پر ایک عورت ڈر کر بھاگی تو لوگ پکڑ کر چتا میں ڈالنے لگے تو ایک انگریز نے اس عورت کو دوبارہ چتا میں نہیں ڈالنے دیا اور اس کی جان بچ گئی ۔ لیکن دوسرے دن اس عورت نے آکر اس انگریز سخت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے ذلیل کر دیا ۔ اگر جل جانے دیا ہوتا تو آج بیکٹھ (جنت) میں شوہر کے ساتھ عیش کر رہی ہوتی ۔ اب میرے لواحقین مجھے برا بھلا اور بدعائیں دیتے ہیں ۔ مشہور یہ بھی تھا کہ مرنے والے کے رشتہ دار اس کی بیوی کو ستی ہونے کے لیے اس لیے بھی مجبور کرتے تھے کہ مرنے والے کی مال اور دولت ان کے ہاتھ لگ جائے ۔ مگر ہندو مذہب میں عورت کو اس طرح کا استقاق نہیں ہے کہ وہ مال و دولت اپنے پاس رکھے یا آزادانہ زندگی بسر کرے ۔ منو کے قانون کے مطابق عورت شادی سے پہلے باپ و بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر اور بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ اگرچہ بہت سی عورتیں شوہر سے محبت کے اظہار میں جوش و جذبات میں ستی ہوتی تھیں ۔
اگر متوفی کی کئی بیویاں ہوں تو عمر جو بڑی ہو اسے ستی ہونے کا پہلا حق ہوتا تھا ۔ اس طرح حاملہ عورت بچے کی پیدائش کے ہونے کے بعد بھی ستی کرلیتی تھی ۔ بہت سی عورتیں ستی کے راضی نہیں بھی ہوتی ہیں اور انہیں زبردستی ستی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔
ستی ہونے کا دستور پورے ہندوستان میں نہیں تھا ۔ جنوب میں دریائے کشنا کی جنوبی جانب عورتیں ستی نہیں ہوتی تھیں ۔ دکن ، گجرات ، بمبئی ، سندھ اور پنجاب میں ستی ہونے والوں کی تعداد کم ہوتی تھی ۔ مگر وسط ہند ، مشرقی ہند ، راجپوتانہ اور بنگال میں یہ رسم عام تھی اور انگریزوں نے اس کی سیکڑوں تعداد رپوٹ کیں ہیں ۔ 1829ء میں پابندی کے قانوں سے پہلے صرف بنگال میں سات سو عورتیں ستی ہوئی تھیں ۔
ہندووَں میں ستی کی رسم صرف اعلیٰ گھرانوں یا یہ صرف راجپوتوں میں راءج تھی ۔ دوسری ذاتوں میں اس کا رواج نہیں تھا ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہندووَں میں ایک دم یہ رسم راءج
== طریقے ==
ستی ہونے کے ہر علاقہ میں مختلف طریقے راءج تھے ۔ مثلاً بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت اٹھ کر بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ اوڑیسہ میں ایک گڈھا کھود کر اس میں مردے کو آگ دیکھاتے تھے اور جب شعلے بلند ہوتے تو اس کی بیوہ اس میں کود پڑتی تھی یا دھکا دے دیا جاتا تھا ۔ دکن میں ستی کا دستور اس طرح تھا کہ چتا میں عورت مردہ شوہر کا سر زانو پر لے بیٹھ جاتی تھی اور چتا کے چاروں طرف لکڑیاں لگا اوپر چھت بناکر اندر مردے اور عورت کے پاس لکڑیاں چن دی جاتی تھیں اور چتا کی چھت کو آگ لگا دی جاتی تھی ۔ عورت یا تو دھویں سے دم گھٹنے سے مرجاتی تھی یا چتا کی چھت اس پر گر جاتی تھی ۔
ستی ہونے والی عورتیں عموماً ستی کے لیے مختلف رسومات برد باری اور صبر و استقلال سے ادا کرتی تھیں کہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ موت کو گلے لگا رہی ہیں ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ستی ہونے والی عورت شعلوں کے درمیان سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر دعائیں مانگتی مانگی جل گئی ۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ چتا کو آگ
برنیر عہد اورنگ زیب میں لکھتا ہے کہ میں نے چند ایسی بدنصیف بیواؤں کو دیکھا تھا جو چتا کی شکل دیکھتے کر بھاگتی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ اگر یہ ظالم اور بے درد برہمن انہیں ستی سے منع کریں تو یہ خوشی خوشی رک جائیں گیں ۔ مگر یہ ان خوف زدہ اور اجل گرفتہ عورتوں کو ستی کی ترغیبیں اور بڑھاوے دیتے رہے اور جب انہوں نے مزاحمت کی تو زبردستی انہیں آگ میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ میرے سامنے ایک غریب جوان عورت اس طرح زبردستی آگ میں ڈال دی گئی تھی ۔ اس طرح میں نے ایک اور بدنصیب عورت کو دیکھا کہ اس کے اردگرد جب آگ بھرکنے لگی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر ان جلاد صفتوں انہیں لمبے لمبے بانسوں سے دبا دیا کہ وہ نکل نہیں نہ سکیں ۔
لیڈی اہمرسٹ نے اکتوبر 1825ء میں ایک دلخراش واقعہ کو اپنے روزنامچہ میں درج کیا ہے کہ ایک نوجوان ہیضے سے مر گیا اور اس کی بیوہ نے اس کے ساتھ چٹا پر جلنے کا ارادہ
برنیر یہ بھی لکھتا ہے ہندوستان کے بعض حصوں مں تو یہ غضب ڈھاتے ہیں کہ جلا کر ستی کرنے
== ستی سے بھاگنے والی عورتیں ==
مسلمان حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ہندووَں نے احتجاج کیا کہ یہ رسم وید کے حکم پر ہے اور اسے بند کرنا ہمارے مذہب میں دخل اندازی ہے ۔ اکبر نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا اور اس نے حکم دیا تھا کہ کسی عورت کو زبردستی ستی نہیں کیا جائے ۔
اکبر نے ستی کی رسم کو روکنے کی انتہائی کوشش کی اور بار بار حکم نامے جاری
== انگریزوں کا اضطراب ==
ایک طویل عرضہ تک انگریز بھی متفرر تھے مگر وہ چاہتے تھے کہ ستی کی رسم کو ختم مرضی اور رضا و رغبت سے ہونا چاہیے اور انہوں نے ناپسندید کرنے کے علاوہ کسی اور
28 مارج 1827ء کو ایوان ہند میں ایک رکن پونیڈر نے ہندو بیواؤں کے ستی ہونے کے خلاف تجویز پر بحث کے دوران یہ ایک واقع کو پیش کیا ۔
ایک برہمن سیتھوکسی اور علاقہ میں مرگیا ۔ دو ہفتے کے بعد اس کی اطلاع گھر والوں کو ملی ۔ انہوں نے اس کی بیوہ ہوملیا جس کی عمر تقریباً چودہ سال تھی ستی کرنے کا فیصلہ
ابتدائی رسوم کے بعد ہومولیا چتا پر بیٹھ گئی اور اس کے چچا شیو لعل نے چتا آگ لگادی ۔ مگر آگ کی تپش ہومولیا کو ناقابل برداشت
== رام موہن رائے ==
لارڈ بنٹنک کو ستی کی رسم روکنے میں مقامی لوگوں جن میں سر فہرست رام موہن رائے سے بھی مدد ملی ۔ موہن رائے نے اپنے بھائی کی بیوہ کو ستی ہونے سے روکنے کی بہت کوشش کی ۔ اس عورت نے پہلے تو اس کی
اس کے جواب میں رام ہوہن رائے نے ایک یاداشت پیش کی ۔ جس میں برطانوی احکام کی کوششوں کی تائید کی کہ وہ انسانی ہمدردی سے کام لے رہی ہے ۔ اس یاداشت میں رام ہوہن نے ستی کے بعض مناظر کو آگاہ کیا گیا اور بتایا کہ ان کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان عورتوں کی موت کے خواہاں اس کے وارث ہوتے ہیں اور ترغیب دے انہیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی کے لیے آمادہ کرتے ہیں ۔ جو عورتوں نے اس سے انکار کیا اسے جبرا چتا میں ڈھکیل کر انہیں رسیوں سے باندھ کر بانسوں سے اس وقت تک دبائے رکھا جاتا ہے جب تک وہ مر نہ جائیں ۔ بعض عورتیں جو کسی طرح بچ نکلیں انہیں ان کے رشتہ داروں نے کسی اور طریقے مار ڈالا ۔ درخواست گزاروں کی عاجزانہ التماس ہے کہ مذکورہ مثالیں تمام شاستروں کی رو سے اور اقوام کے فہم کے لحاظ سے قتل ہیں ۔
رام موہن رائے اپنے کو خطرے میں ڈال کر کلکتہ کے مرگھٹ پر جاتے اور ستی کو روکنے کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔ 1829ء میں لارڈ بنٹنک نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں مختلف شاستروں کے مستند اقتباسات سے یہ ثابت کیا کہ ستی مذہبی فریضہ نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ستی کی واداتوں میں اضافہ مذہبی اعتقاد نہیں بلکہ رشتہ داروں بیوہ کے اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ لہذا اس رسم پر پابندی سے مذہب کو خطرہ نہیں ہے ۔ جس کی ضمانت کا برطانیہ نے عہد کیا ہوا ہے ۔
مگر لارڈ بنٹنک نے اخلاقی جرت کا مظاہر کے ستی کے قانون کو نافذ کیا ۔ اس پہلے اپنے ساتھی سر چارلس جو
ہند کی برطانوی کا موقف تھا وہ برصغیر آہستہ آہستہ اصلاحات کی طرف توجہ دے ۔ اس لیے انہوں نے دھرم شاستر یا شرح اسلام کی تبدیلی کی طرف توجہ نہیں دی اور حتیٰ الامکان ملک کے قوانین اور رسوم کا احترام کیا ، مذہبی معاملات میں کاملات رواداری سے کام لیا ۔ لیکن بعض امور ایسے تھے جس میں اپنی عدم مداخلت کو روکنا دشوار تھا ۔ ان میں ایک اہم اور مشکل مسلہ ستی کا بھی تھی ۔ جو
معلوم ہوتا ہے کہ لارڈ ایمہرسٹ کے جانشین لارڈ ولیم بیلٹک کے دل پر خاص اثر کیا اور انہوں نے پوری احتیاط سے تحقیقات کرکے متعلقہ جماعت کی رائے معلوم کی ۔ بنگال میں خفیہ تحقیقات سے معلوم ہوا کے ستی کے انسداد سے فوج میں بغاوت کا خطرہ محض خیام خیالی ہے ۔
== لارڈ بنٹنک کا اضطراب ==
وہ ستی کے بارے میں لکھتا ہے کہ ستی کو روکنے یا اسے جاری رکھنے دونوں میں خدشات تھے ۔ اگر یہ رسم جاری رہتی تو ہر سال سینکڑوں بے گناہ جانوں کو کی موت پر رضامندی کا اظہار تھا اور پابندی صورت میں خطرہ برطانیوی سلطنت کی سلامتی کو خطرہ تھا ۔ مگر کوئی مہذب حکومت اس انسانیت سوز رسم برداشت نہیں کر سکتی ہے جو
میرے سامنے 1827ء و 1828ء میں ستی کے واقعات ہیں ۔ سال 1827ء کے مقابلے میں 54 واقعات کم ہوئے ہیں اور گزشتہ سالوں کے مقابلے یہ بہت زیادہ کم ہیں ۔ لیکن اس کمی کو تہذیب یا تعلیم کی ترقی کا سبب کہا جائے تو خاصہ اطمنان بخش ہوگا اور اصلاح کا ست رفتار عمل میں دخل دینا خلاف عقل و مصلحت ہوگا ۔ لیکن میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کلکتہ میں شاید اعلیٰ طبقوں یہ اثر ابداز ہوئی لیکن عام آبادی میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور اس رسم کو بند ہونے کی کوئی امید نہیں ہے ۔
رام موہن رائے کے خیالات میں صداقت ہے لیکن ان سے نتاءج سے اتفاق نہ کرتا ہوں ۔ فورٹ ولیم کے زیر حکومت علاقہ میں ستی جو 462 واقعات ہوئے ان میں سے 420 بنگال ، بہار اور اوڑیسہ میں ہوئے ۔ ان میں سے 287 صرف ضلع کلکتہ میں ہوئے ۔ ضلع کلکتہ جس کی آباد لاکھوں افراد پر مشتمل ہے اور یہی صورت حال بنگال بہار اور اوڑیسہ میں بھی تھی ۔ جہاں اخلاقی جرت اور قوت کی قدر کمی ہے اور حکومت کے خلاف بغاوت یا مخالفانہ مقابلہ کا خطرہ نہیں ہے ۔ اس
ان اعلیٰ خیالات سے قطع نظر اپنی حکومت جس میں ایک عضو ہوں ستی کے جاری رکھنے سے برطانوی حکومت کے دامن پر ایک بدنما داغ لگ جائے گا اور اس پر پابندی سے خطرناک نفس پرستی ، نا انصافی اور انسانی قربانی رک جائے گی ۔ آخر میں عام نظم و نسق سلطنت برطانیہ کے طرز عمل اس تقلید پر مبنی ہے جو برطانوی حکومت نے رہنمائی کے لیے انگلستان میں قائم ہے کرے اور انہیں اعلیٰ و ارفع اصول کو جب ممکن ہو ہندوستان کی کثیر آبادی کے حالات پر منطبق کرنے سے انگلستان کی عام خوش حالی کو ترقی اور قوم کے کردار کو بلندی نصیب ہوسکتی ہے ۔
== خاتمہ ==
1829ء ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس رسم کے خلاف قانون کا اجزا کیا جس میں سختی سے اس رسم روکنے کا حکم دیا ۔ شروع میں لوگوں نے چھپ کر ستی کے کچھ واقعات ہوئے ۔ مگر برطانوی حکومت نے سختی سے اس رسم میں مددگاروں کو سخت اور کڑی پر سخت سزائیں دیں گئیں ۔ یہاں تک اس رسم کا صدباب
== ماخذ ==
برطانوی حکومت ہند ۔ انڈیسن
ہند کے سیاسی مسلک کی
== مزید دیکھیے ==
* [[حق آقا]]
|