"صحیح بخاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏مؤلف: اضافہ مواد
سطر 41:
 
==مؤلف==
{{اصل|محمد بن اسماعیل بخاری}}
پورا نام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہبَرْدِزبَہ(2) جعفی بخاری۔ اہل سنت والجماعت کے مشہور محدث، رجال حدیث، جرح و تعدیل اور علل کے امام<ref>صحيح البخاري (طبعة دار التأصيل:ج1 ص32/مقدّمة التحقيق)</ref> اور بڑے حافظ حدیث(3) اور فقیہ<ref>البداية والنهاية - ابن كثير، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري الدمشقي (طبعة دار هجر:ج14 ص530)</ref> ہیں۔ [[بخارا]] میں جمعہ کی رات 13 شوال سنہ 194 ہجری مطابق 20 جولائی سنہ 810 عیسوی میں پیدا ہوئے،<ref>الإرشاد في معرفة علماء الحديث - أبو يعلى الخليلي، خليل بن عبد الله بن أحمد بن إبراهيم بن الخليل القزويني (طبعة مكتبة الرشد:ج3 ص959)</ref><ref>البداية والنهاية - ابن كثير أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري الدمشقي (طبعة دار هجر:ج14 ص527)</ref> علمی گھرانہ میں پرورش پائی جہاں ان کے والد محترم خود حدیث کے بڑے عالم تھے،<ref>التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة - شمس الدين الشخاوي، أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان (طبعة دار الكتب العلميه:ج2 ص448)</ref> والد محترم امام بخاری کے بچپن ہی میں وفات پا گئے، اور امام بخاری نے یتیمی کی حالت میں ماں کی کفالت و تربیت میں پروان چڑھے،<ref>البداية والنهاية - ابن كثير أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري الدمشقي (طبعة دار هجر:ج14 ص256)</ref><ref>تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (طبعة دار الكتب العلمية:ج2 ص104)</ref> بچپن ہی سے طلب علم میں مشغول ہوئے، چنانچہ بچپن ہی میں قرآن مجید اور اس زمانہ کی امہات الکتب کو حفظ کر لیا، یہانتک کہ جب عمر دس سال ہوئی تو حدیث حفظ کرنا شروع کیا، شیوخ اور علما کے پاس آنے جانے لگے، دورس حدیث کے حلقوں میں شریک ہونے لگے،<ref>التوضيح لشرح الجامع الصحيح - ابن الملقن، سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (طبعة دار النوادر:ج1 ص57/مقدّمة التحقيق)</ref> اور سولہ برس کی عمر میں [[عبد اللہ بن مبارک]] اور [[وکیع بن جراح]] کی کتابوں کو حفظ کر لیا۔<ref>طبقات الشافعية الكبرى - تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكي (طبعة دار هجر:ج2 ص216)</ref> طلب حدیث اور شیوخ سے ملاقات کی غرض سے اسلامی دنیا کے اکثر ملکوں اور شہروں کا سفر کیا، وہاں کے تقریبا ایک ہزار علما و شیوخ سے استفادہ کیا<ref name="الزركلي">الأعلام - خير الدين الزركلي (طبعة دار العلم للملايين:ج6 ص34)</ref> اور تقریباً چھ لاکھ احادیث کو جمع کیا۔<ref name="المختصر1">مختصر تاريخ دمشق - ابن منظور، أبو الفضل محمد بن مكرم بن على بن منظور الأنصاري (طبعة دار الفكر: ج22 ص27)</ref>
 
امام بخاری نے خوب شہرت و مقبولیت حاصل کی، ان کے ہم عصروں حتی کہ ان کے شیوخ تک نے ان کا اعتراف کیا، ان کے بعد کے علما نے حدیث و علوم حدیث میں ان امامت کا لوہا مانا،<ref>شرح یہانتکعلل الترمذي - ابن رجب الحنبلي، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن السَلامي الحنبلي (طبعة مكتبة المنار:ج1 ص494)</ref> یہاں تک کہ انھیں امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا گیا۔(4)<ref>تدوين السنة النبوية نشأته وتطوره من القرن الأول إلى نهاية القرن التاسع الهجري - ياسر محمد بن مطر بن عثمان آل مطر الزهراني (طبعة دار الهجرة للنشر والتوزيع:ج1 ص115)</ref><ref name="الإرشاد1">إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري - القسطلاني، أبو العباس أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري (طبعة المطبعة الكبرى الأميرية، مصر:ج1 ص33)</ref> امام بخاری سے بہت سے کبار علما و محدثین نے علم حاصل کیا، مثلا: امام[[مسلم بن مسلم،حجاج|مسلم]]]، [[ابن خزیمہ،خزیمہ]]، [[ترمذی]] اور دوسرے ائمہ محدثین۔ اس کے علاوہ طلاب علم، روات اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے ان سے سماعت اور استفادہ کیا۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے علاوہ دیگر کئی تصنیفات ہیں، جس میں سب سے مشہور التاریخ الکبیر، الادب المفرد، رفع الیدین فی الصلاۃ اور قرات خلف الامام وغیرہ ہے۔ اخیر عمر میں امام بخاری پر آزمائش کا آغاز ہوا، ان پر بہت ظلم ڈھایا گیا، یہاں تک کہ انھیں نیشاپور اور بخارا سے شہر بدر کر دیا گیا، چنانچہ وہاں سے سمرقند کے ایک دیہات میں چلے گئے، وہیں آخری سانس تک بیماری کی حالت میں مقیم رہے اور عید الفطر کی رات سنیچر کے دن 256 ہجری مطابق 1 ستمبر 870 عیسوی میں وفات ہو گئی۔<ref>سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (طبعة مؤسسة الرسالة:ج12 ص467)</ref>
 
امام بخاری نے خوب شہرت و مقبولیت حاصل کی، ان کے ہم عصروں حتی کہ ان کے شیوخ تک نے ان کا اعتراف کیا، ان کے بعد کے علما نے حدیث و علوم حدیث میں ان امامت کا لوہا مانا، یہانتک کہ انھیں امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا گیا۔(4) امام بخاری سے بہت سے کبار علما و محدثین نے علم حاصل کیا، مثلا: امام مسلم، ابن خزیمہ، ترمذی اور دوسرے ائمہ محدثین۔ اس کے علاوہ طلاب علم، روات اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے ان سے سماعت اور استفادہ کیا۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے علاوہ دیگر کئی تصنیفات ہیں، جس میں سب سے مشہور التاریخ الکبیر، الادب المفرد، رفع الیدین فی الصلاۃ اور قرات خلف الامام وغیرہ ہے۔ اخیر عمر میں امام بخاری پر آزمائش کا آغاز ہوا، ان پر بہت ظلم ڈھایا گیا، یہاں تک کہ انھیں نیشاپور اور بخارا سے شہر بدر کر دیا گیا، چنانچہ وہاں سے سمرقند کے ایک دیہات میں چلے گئے، وہیں آخری سانس تک بیماری کی حالت میں مقیم رہے اور عید الفطر کی رات سنیچر کے دن 256 ہجری مطابق 1 ستمبر 870 عیسوی میں وفات ہو گئی۔
== عُنوان و موضوعات ==
کتاب کو کئی بڑے اور بہت سے چھوٹے حِصّوں میں موضوع وار ترتیب دیا گیا۔ بڑے حصوں کو کتاب اور چھوٹے حصوں کو باب کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ بڑے موضوعات مندرجۂ ذیل ہیں۔