"کے ٹو" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 42:
کے ٹو کو [[ماؤنٹ ایورسٹ]] کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو پر 246 افراد چڑھ چکے ہیں جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ پر 2238۔
 
[[کے ٹو]] یا گاڈون آسٹن کی چوٹی [[قراقرم]] کے پہاڑی سلسلے کی وہ بلند ترین چوٹی ہے جو [[پاکستان]] اور [[چین]] کی سرحد کے قریب [[گلگت بلتستان]] میں واقع ہے۔ یہ [[ماؤنٹ ایورسٹ]] کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ [[کےٹو]] کو مقامی [[بلتی زبان]] میں چھوغوری بھی کہتے ہیں جو آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر یعنی [[سطح سمندر]] سے اٹھائیس ہزار دوسو اکاون فٹ کی بلندی پر سے اپنی تمام تر قاتلانہ رعونیت کے ساتھ کوہ پیماؤں کو پکارتی رہتی ہے۔
 
انگریز سرکار کے ماتحت جب [[ہندوستان]] کے طول وعرض کی پیمائش کے لئے سروے کیا گیا تو [[تھامس منٹگمری]] نے اس چوٹی کو کے۔ ٹو (قراقرم 2) کا نام دیا۔ اس سے بھی پہلے ایک انگریزجیولوجسٹ ہنری گاڈون آسٹن نے [[قراقرم]] کے اس تاج کو کھوج نکالا تھا، اسی مناسبت سے اسے [[گاڈون آسٹن پہاڑ]] بھی کہاجاتا ہے۔ کوہ قراقرم کی اس بلند ترین چوٹی کو اپنی خطرناک چڑھائیوں ڈھلانوں کی بنا پر وحشی یا ظالم پہاڑی چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔ [[ماوئنٹ ایورسٹ]] کے مقابلے میں [[کےٹو]] سر کرنے کا تناسب کم ہے کیونکہ کے ٹوکی چوٹی تک پہنچنے میں انتہائی ناسازگار موسم اور اس پہاڑ کی جان لیوا چڑھائی جس کے خط تقریباً عمودی ہیں رکاوٹ ہے، گاڈون آسٹن کے یہ دونوں ایسے مہلک ہتھیار ہیں جو اسی سے زائد کوہ پیماؤں کی جان لے چکے ہیں۔ ان چڑھائیوں میں ‘بوٹل نیک’ وہ خطرناک ترین مقام ہے جہاں کئی جان لیوا حادثے رونما ہوچکے ہیں۔ ان میں ۲۰۰۸2008 کاوہ سانحہ بھی شامل ہے جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے گیارہ کوہ پیما زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بوٹل نیک کے ٹو کا وہ جرنیل ہے جو برف کے دیو ہیکل ستونوں اور تودوں سے لیس ہے اور اس اہرام نما پہاڑی چوٹی پر قدم رکھنے والے ہر پانچ میں سے ایک کوہ پیما کو دھوکا دہی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کے ٹو اصل جوش و جذبہ رکھنے والے کوہ پیما اور شہرت کے بھوکے کوہ پیما میں تمیزکردینے والی چوٹی ہے ۔
 
کے ٹو[[کےٹو]] کو سر کرنے کے لئے پہلی دفعہ ۱۹۰۲1902ء میں کوشش کی گئی تھی جو ناکام ٹھہری تھی۔ متعدد کوہ پیما گروپوں کی ناکامی اور تجربات کےبعد ۱۹۵۴1954ء میں ایک اطالوی ٹیم نے پہلی بار کے ٹو کی وحشی ظالم چوٹی کو سر کرکے کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا۔ ۱۹۷۷1977ء میں اشرف امان کے ٹو کو تسخیر کرنے والے پہلے پاکستانی بنے۔ اس کے بعد سے بہت سے کوہ پیما قراقرم کے اس اونچے ترین مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کے ٹو کو سر کرنے کے لئے جون تا اگست بہترین مہینے ہیں باقی سال یہاں کا موسم کوہ پیمائی کے لئے انتہائی نا مناسب ہے۔ اسے سر کرنے کے لئے زیادہ تر ابروزی روٹ اختیار کیا جاتا ہے جو کٹھن اور خطرناک ہونے کے باوجود تکنیکی بنیادوں پر استعمال کیا جانے والا راستہ ہے۔ نذیر صابرپاکستان کا وہ سرمایہ افتخار ہیں جنہوں نے کے ۲2 کو مغربی چڑھائی کی طرف سے سر کرکے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ ۱۹۸۱1981ء میں کی جانے والی اس کوہ پیمائی میں نذیر صابر کے ساتھ جاپانی کوہ پیما شامل تھے۔ مہربان شاہ، رجب شاہ اور حسن سدپارہ بھی کے ٹو کی بلندیوں کو چھو چکے ہیں۔ ۲۰۱۴ میں پہلی بار پاکستانی بار برداروں اور گائیڈز پر مشتمل ٹیم نے اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ کے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھ کر اسے سر کرنے کے ساٹھ سال پورے ہونے کا جشن منایا۔ کے ٹو کی عکس بندی ڈرون کے ذریعے ۲۰۱۶2016ء میں پہلی دفعہ کی گئی لیکن یہ چھ ہزار میٹر تک ہی ممکن ہوسکا، اس کے بعد کے ٹو کے نگہبان موسم نے ڈرون کو پرواز کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
 
== کتابیات ==