"لاہور کی عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← جامع مسجد، اور، ابتدا، دیے، کیے، ان کے، جن ک\1، جس کے، جس، علما، ذو الفقار، پزیر، ان کی، اس ک\1، لیے؛ تزئینی تبدیلیاں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 74:
[[لاہور]]میں پرانے شہر میں اندرون [[موچی دروازہ|موچی دروازے]] کا علاقہ اہمیت کا حامل ہے، جہاں کا محلہ شیعاں دنیا بھر میں [[عزاداری]] کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ موچی دروازے ہی کی نثار حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے جہاں [[قزلباش]] خاندان نے [[1800]] کے اوائل میں [[محرم]] کی مجالس کرنا شروع کیں اور اب [[ماڈل ٹاؤن]] کے جامعہ المنتظر اور اس سے آگے [[راۓ ونڈ]] روڈ تک پھیلی نئی آبادیوں میں قائم عزا خانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں [[علم]] اور ماتمی [[جلوس]] نکالے جا رہے ہیں۔
 
نواب خاندان میں نواب [[مظفر علی خان قزلباش|مظفر علی قزلباش]] کو مقبولیت ملی کیونکہ وہ [[پنجاب، پاکستان|پنجاب]] کے [[وزیر اعلی]] بھی رہے۔ اس خاندان کی اہم شخصیت نواب رضا خان تھے جن کے اجداد میں سر نوازش علی خان [[نواب]]قزلباش آف [[لاہور]] قرار پائے اور انکاکا انتقال [[1890ء]] میں ہوا اور [[عزاداری]] کا کام ان کے چھوٹے بھائی نواب ناصر علی کے ذمے آیا جو [[1898ء]] میں انتقال کر گئے، جس کے بعد یہ انتظام نواب فتح علی کے ذمے تھا اور یہیں سے [[لاہور]] میں [[عزاداری]] کا عروج شروع ہوتا ہے۔تھا۔ آج بھی [[لاہور]] میں نثار حویلی کا جلوس وقت کے اعتبار سے طویل ترین جلوس ہے جو 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے کے بعد [[بھاٹی دروازہ|بھاٹی دروازے]] میں [[کربلا گامے شاہ]] پر ختم ہوتا ہے۔ [[مصطفی علی ہمدانی|مصطفیٰ علی ہمدانی]] نے [[ریڈیو پاکستان]] کے لیے تیار کیے جانے والے دستاویزی پروگرام میں بتایا تھا کہ [[گامے شاہ]] اور مائی گاماں دراصل دونوں [[مجذوب]] تھے، جو عاشور کے دن [[سر]] پر گتے کا [[تعزیہ]] رکھ کر [[کرشن نگر]] سے [[داتا دربار]] تک آتے تھے جہاں اس وقت [[دریائے راوی]] بہتا تھا اور یہاں [[تعزیہ]] ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ یہ امام باڑہ یوں بنا کہ سنہ 1805 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک سال تعزیہ نکالنے شہر میں تعصباً تعصباً موقوف کر کے منادی کرادی کہ کرادی کہ جو کوئی تعزیہ نکالے گا سخت سزا یاب ہو گا۔ تب سید گامے شاہ نے یہاں تعزیہ بنوایا اور ماتم کرایا۔ جب رتن سنگھ گرجاکھیہ نے جو عدالتی شہر لاہور کا تھا، سنا تو اس نے اس کو گرفتار کر منگوایا اور ضرب و شلاق کرائی۔ کہتے ہیں کہ بوقت شب کو کچھ خوف آیا اور اس باعث سے اس نے اس سید کو کچھ نذر دے کر رہا کر دیا تب سے یہ مکان مشہور ہوا۔ بابا گامے کا انتقال ہوا تو اسے [[داتا دربار]] کے عقب میں [[دفن]] کیا گیا اور اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ پڑ گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نواب ناصر علی خان کے علاوہ اردو ادبادیب اور اردو صحافت کے ایکپہلے شہنشاہشہید آزادی علامہ [[محمد باقر دہلوی]] کے فرزند شمس العلماء مولانا [[محمد حسین آزاد]] کا بھی مزار موجود ہے۔ انکے علاوہ [[مفتی جعفر حسین]] اور علامہ مفتی [[کفایت حسین]] اور علامہ سید اظہر حسن زیدی مدفون ہیں۔
 
[[لاہور]] کا دوسرا بڑا تاریخی مرکز وسن پورہ میں ہے جہاں [[عزاداری]] کی بنیاد مولانا سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے ڈالی تھی اور انہیں کے گھر میں بعد ازاں پہلا جامعہ المنتظر کھلا تھا جو بعد میں [[ماڈل ٹاؤن، لاہور|ماڈل ٹاؤن]] منتقل ہو گیا۔ کیسے کیسے نابغہ روزگار [[علماء]] اور ذاکرین تھے جو کسی مفاد اور تمنا کے بغیر ذکر امام کرتے تھے۔ خطابت اور ذاکری میں کمرشل ازم نہیں آیا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ [[شیعہ]] [[سنی|سُنی]] کا کوئی فرق معلوم نہیں تھا۔ سب [[مسلمان]] کیا بلکہ غیر مسلم بھی [[کربلا]] والوں کا غم مل کر منایا کرتے تھے۔ جب علامہ حائری مجلس پڑھتے [[علامہ اقبال]] سننے آتے۔ پرانے [[دریائے راوی]] کے کنارے سے کچھ دور آباد ہونے والی اس بستی میں [[لاہور]] کی [[اہل تشیع]] کی پہلی جامع مسجد علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ علامہ سید علی الحائری کا خاندان عشروں تک یہاں رہا ہے۔ [[مصطفی<ref>https://www.islamtimes.org/ur/article/318912/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%A7%D9%88%D9%84</ref>۔<ref>اسلام علیٹائمز، ہمدانی|مصطفیٰتحریر: ہمدانی]] کے فرزندسید [[صفدر ہمدانی]]، کہتےترتیب ہیںو کہاضافہ: وسن پورہ میں ہمارے [[گھر]] کا دروازہ اور مسجد علامہ حائری کا دروازہ بالکل آمنے سامنے تھے اور اس کے میناروں سے 5 وقت [[اذان]] کی آواز دور دور تک مسلمانوں کو حیی علی الفلاح اور حیی علی الصلٰوۃ کی دعوت دیتی تھی۔ یہ کوئی صدیوں پہلے کی بات نہیں بلکہ چند عشروں پہلے کی بات ہے جب ہم ابھی بچے تھے اور نوجوانی کی طرف قدم بڑھا رہے تھے کہ وسن پورہ سمیت [[لاہور]] کے کتنے ہی ایسے علاقے تھے جہاں [[عزاداری]] فروغ پا رہی تھی اور ان تمام علاقوں میں [[سنی|سُنی]] اور [[شیعہ]] کا کوئی فرق نہیں تھا۔ سب [[مسلمان]] [[شیعہ]] [[سنی|سُنی]] مل کر [[حسین بن علی|نواسہ رسول]] کاسردار غمتنویر مناتےحیدر</ref>. تھے۔<ref>https://www.aalmiakhbar.com/archive/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=2800</ref>
 
علامہ حافظ [[کفایت حسین]] قبلہ کی مجالس میں بعض اوقات [[اہل تشیع]] سے زیادہ تعداد [[اہل سنت]] کی ہوتی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ شاعر انقلاب حضرت [[جوش ملیح آبادی]] نے تو یہ سچی بات یہاں تک کہی تھی کہ ‘‘ کیا صرف مسلمانوں کے پیارے ہیں حسین‘‘۔ ہم اس بات میں کیوں اچنبھا محسوس کرتے ہیں کہ [[کربلا]] والوں کی یاد میں ہونے والی مجالس میں [[اہل سنت]] بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ [[صفدر ہمدانی]] کہتے ہیں کہ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ ہمارے محلے میں ایک [[مسیحی]] خاندان رہا کرتا تھا جس کے سربراہ مرحوم ماسٹر رلیا رام تھے اور پھر ان کے بیٹے آر سی سوڈھی پورے محلے میں ایک [[استاد]] کے طور پر بڑی عزت سے دیکھے جاتے تھے اور انہی سوڈھی مرحوم کا بھائی ‘‘جان کرسٹوفر‘‘ جو بعد میں [[میجر]] ہو کر [[پاک فوج]] سے [[ریٹائرڈ]] ہوا اور آج کل [[برطانیہ]] میں [[ناٹنگھم]] کے علاقے میں مقیم ہے وہ جان کرسٹوفر بھی، ہم سب [[شیعہ]] [[سنی]] افراد کے ساتھ مجالس میں شریک ہوتا تھا اور کبھی کبھی [[اہل تشیع]] دوستوں کے ساتھ [[ماتم]] بھی کیا کرتا تھا۔ یہی نہیں جان کرسٹوفر [[رمضان]] میں ہمارے ساتھ مل کر [[روزہ]] بھی رکھتا تھا۔
 
یہ تو صرف ایک مثال ہے جس کا گواہ میں خود ہوں اس کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہوں گی جہاں مختلف مسالک کے لوگ نہیں بلکہ سب [[مسلمان]] مل کر نواسہ رسول کی قربانی کی یاد مناتے ہوں گے۔ یہ ساری تباہی اور بربادی [[محمد ضیاء الحق|جنرل ضیاءالحق]] کے زمانے میں پروان چڑھی، جس نے اپنی [[حکومت]] بچانے کے لیے مسالک کے درمیان نفرتوں کو فروغ دیا اور پھر یہ نفرتیں اس قدر بڑھیں کہ [[صحابہ]] اور آلِ محمد کی تعلیمات کے برعکس [[سپاہ صحابہ]] بنی جنہوں نے [[اسلام]] کی وہ خدمت کی کہ غیر مسلم کہنے لگے کہ مسلمانوں کے خلاف رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں وہ خود ہی اپنے آپ لڑ لڑ کے مر جائیں گے۔ یہ ساری تفرقہ بازی کس نام پر ہوئی؟ اسلام کے نام پر جس کا خمیر ہی امن و سلامتی سے اٹھا ہے۔<ref>https://www.islamtimes.org/ur/article/318912/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%A7%D9%88%D9%84</ref>۔<ref>اسلام ٹائمز، تحریر: سید [[صفدر ہمدانی]]، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر</ref>. <ref>https://www.aalmiakhbar.com/archive/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=2800</ref>
 
علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم کو دراصل پہلی بار [[نواب]] قزلباشوں نے ہی [[مجلس]] خوانی کے لیے [[لاہور]] مدعو کیا تھا اور یہ بات [[1800ء]] کے درمیانی عشروں کی ہے۔ پھر اسی زمانے میں وسن پورہ میں جو ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا، علامہ حائری کے والد ابوالقاسم نے وسن پورہ کی زمین خریدی تھی اور یہیں پر [[اہل تشیع]] کی [[لاہور]] میں باقاعدہ پہلی جامع [[مسجد]] علامہ حائری کا قیام عمل میں آیا اور علامہ قاسم نے مختصر پیمانے پر ایک [[مدرسہ]] اور [[کتب خانہ]] بھی قائم کیا اور اسی [[مسجد]] میں [[عزاداری]] کا سلسلہ شروع ہوا جہاں [[9 محرم]] کو [[ذوالجناح]] کا [[جلوس]] نکلنا شروع ہوا اور یہ [[روایت]] آج تک قائم ہے۔ شمس العلماء مولانا ابوالقاسم کی [[وفات]] [[1906ء]] میں ہوئی جس کے بعد یہ سب انتظام ان کے بیٹے علامہ سید علی الحائری نے سنبھالا اور ان کی [[وفات]] کے بعد [[علم]] کا یہ در اس [[خاندان]] میں بند ہو گیا لیکن علامہ حائری کے بیٹوں نے [[مسجد]] میں [[نماز]] اور [[عزاداری]] کا سلسلہ قائم رکھا۔