"لاہور کی عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 78:
[[لاہور]] کا دوسرا بڑا تاریخی مرکز وسن پورہ میں ہے جہاں [[عزاداری]] کی بنیاد مولانا سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے ڈالی تھی اور انہیں کے گھر میں بعد ازاں پہلا جامعہ المنتظر کھلا تھا جو بعد میں [[ماڈل ٹاؤن، لاہور|ماڈل ٹاؤن]] منتقل ہو گیا۔ پرانے [[دریائے راوی]] کے کنارے سے کچھ دور آباد ہونے والی اس بستی میں [[لاہور]] کی [[اہل تشیع]] کی پہلی جامع مسجد علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ علامہ سید علی الحائری کا خاندان عشروں تک یہاں رہا ہے۔ <ref>https://www.islamtimes.org/ur/article/318912/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%A7%D9%88%D9%84</ref>۔<ref>اسلام ٹائمز، تحریر: سید [[صفدر ہمدانی]]، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر</ref>. <ref>https://www.aalmiakhbar.com/archive/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=2800</ref>
 
علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم کو دراصل پہلی بار [[نواب]] قزلباشوں نے ہی [[مجلس]] خوانی کے لیے [[لاہور]] مدعو کیا تھا اور یہ بات [[1800ء]] کے درمیانی عشروں کی ہے۔ پھر اسی زمانے میں وسن پورہ میں جو ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا، علامہ حائری کے والد ابوالقاسم نے وسن پورہ کی زمین خریدی تھی اور یہیں پر [[اہل تشیع]] کی [[لاہور]] میں باقاعدہ پہلی جامع [[مسجد]] علامہ حائری کا قیام عمل میں آیا اور علامہ قاسم نے مختصر پیمانے پر ایک [[مدرسہ]] اور [[کتب خانہ]] بھی قائم کیا اور اسی [[مسجد]] میں [[عزاداری]] کا سلسلہ شروع ہوا جہاں [[9 محرم]] کو [[ذوالجناح]] کا [[جلوس]] نکلنا شروع ہوا اور یہ [[روایت]] آج تک قائم ہے۔ شمس العلماء مولانا ابوالقاسم کی [[وفات]] [[1906ء]] میں ہوئی جس کے بعد یہ سب انتظام ان کے بیٹے علامہ سید علی الحائری نے سنبھالا اور ان کی [[وفات]] کے بعد [[علم]] کا یہ در اس [[خاندان]] میں بند ہو گیا لیکن علامہ حائری کے بیٹوں نے [[مسجد]] میں [[نماز]] اور [[عزاداری]] کا سلسلہ قائم رکھا۔
 
علامہ حائری کے بیٹوں میں آغا سید رضی، آغا سید ذکی اور آغا سید تقی سب [[وفات]] پا چکے ہیں اور اب یہ [[خاندان]] لگ بھگ سارے کا سارا وسن پورہ چھوڑ کر [[لاہور]] کی جدید آبادیوں میں مقیم ہو چکا ہے۔ علامہ سید علی الحائری کی تین بیٹیاں تھیں جن میں محترمہ سائرہ جن کے شوہر آغا سید رضی تھے جو [[کالا شاہ کاکو]] کے حادثے میں فوت ہوئے تھے۔ محترمہ ذکیہ جن کے شوہر آغا سید حامد حسین تھے انہوں نے [[1970ء|70]] کے عشرے میں [[لاہور]] [[گلبرگ، لاہور|گلبرگ]] میں مجالس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ علامہ حائری کی سب سے چھوٹی بیٹی عالیہ تھیں جن کے شوہر سید تقی تھے جنہیں ہم سب آغا بابا کہتے تھے۔ [[صفدر ہمدانی]] کہتے ہیں کہ یہاں ایک اور تاریخی حقیقت کی طرف صرف اشارہ کرتا چلوں جو مجھے میرے والد مرحوم [[مصطفی علی ہمدانی]] نے بتائی تھی اور اس بات کا ذکر انہوں نے [[لاہور]] کی [[عزاداری]] کی تاریخ کے موضوع پر بنائی جانے والی [[ریڈیو]] [[لاہور]] کے اس واحد دستاویزی [[پروگرام]] میں کیا تھا جو شاید اب [[ریڈیو پاکستان]] کے آرکائیو میں بھی موجود نہ ہو حالانکہ اس [[پروگرام]] کو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے سنٹرل پروڈکشن کے آرکائیو رجسٹر میں درج کیا تھا۔
 
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ [[لاہور]] کے [[10 محرم]] کے تاریخی جلوس کا جو راستہ ہم گذشتہ کئی عشروں سے دیکھ رہے ہیں دراصل یہ وہ (روٹ) راستہ نہیں ہے جو ابتدا میں تھا۔ [[1850ء]] کے عشرے میں [[موچی دروازہ|موچی دروازے]] سے [[10 محرم]] کے [[ذوالجناح]] کا پہلا جلوس [[مبارک حویلی]] سے نکلا تھا کیونکہ اس وقت [[نثار حویلی]] الگ نہیں تھی۔ یہ تو بعد میں [[1928ء]] میں خاندانی تنازعوں اور [[جائیداد]] کی تقسیم کی وجہ سے عمل میں آئی اور یہ جلوس نثار حویلی سے نکلنے لگا۔ بر سبیل تذکرہ [[تاریخ]] سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے عرض ہے کہ [[کوہ نور]] [[ہیرا]] ایک زمانے میں اس مبارک حویلی میں بھی رکھا گیا تھا۔ [[مرحوم]] شاہد نقوی نے بھی اپنی تحقیقی [[کتاب]]‘‘[[عزاداری]]‘‘ میں اس تاریخی جلوس کا جو راستہ لکھا ہوا ہے وہ بھی موجودہ راستہ ہے۔ ابتدا میں [[10 محرم]] کی [[نصف شب]] میں نثار حویلی سے برآمد ہو کر [[نماز]] [[فجر]] تک محلہ شیعاں میں پہنچتا، جہاں [[فجر]] کی [[نماز]] ادا کی جاتی اور پھر یہاں سے [[لال کھوہ]] سے ہوتا ہوا جلوس [[کیلیاں والی سڑک]] پر نکل جاتا جسے آج کل [[برانڈرتھ روڈ]] کہا جاتا ہے۔
 
اس کیلیاں والی سڑک سے جلوس سیدھا [[انارکلی بازار|انار کلی]] کے باہر سے ہوتا ہوا [[بھاٹی دروازہ|بھاٹی دروازے]] پہنچتا تھا جہاں سے [[داتا دربار]] کے عقب میں [[کربلا گامے شاہ|کربلائے گامے شاہ]] میں اسی جگہ اختتام پزیر ہوتا تھا جہاں آج تک ہوتا ہے۔ اس طرح اس بڑے اور کشادہ راستے پر اس تاریخی عظیم الشان جلوس کی شان ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ [[1958ء]] میں جب وہ اس وقت کے [[مغربی پاکستان]] کے [[وزیر اعلی|چیف منسٹر]] مقرر ہوئے تو [[حکومت]] کے ارباب بست و کشاد نے انہیں اس راستے کو تبدیل کرنے کو کہا۔ [[سیاست]] اور سیاست دانوں کی اپنی [[دنیا]] اور اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ [[نواب]] [[مظفر علی خان قزلباش]] نے اپنی [[وزیر اعلی|چیف منسٹری]] کے زمانے میں اس راستے کو تبدیل کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی اور آج یہ تاریخی جلوس اندر ہی اندر تنگ و تاریک گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا کربلائے گامے شاہ پہنچ کر ختم ہوتا ہے اور باہر [[دنیا]] کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتنا بڑا اور کیسا تاریخی جلوس ہے۔
 
[[پاکستان]] کے قیام کے بعد [[خاندان]] نواباں کے [[نواب]] [[مظفر علی خان قزلباش|مظفر علی خان]] واحد [[آدمی]] تھے جو [[سیاست]] میں آنے کے باعث معروف ہوئے اور ان کے بعد ان کی بیٹی افسر رضا قزلباش، [[نواب]] [[مظفر علی خان قزلباش|مظفر علی]] [[سیاستدان]] کے طور پر پہلے [[یونینسٹ پارٹی (پنجاب)|یونینسٹ]]، پھر [[پاکستان مسلم لیگ|مسلم لیگی]] اور پھر [[ریپبلکن پارٹی (پاکستان)|ریپبلکن پارٹی]] میں رہے اور اسی پارٹی کے جھنڈے تلے [[1957ء]] میں [[وزیراعظم]] [[ابراہیم اسماعیل چندریگ|اسماعیل چندریگر]] کی [[کابینہ]] میں [[وزارت صنعت و پیداوار (پاکستان)|وزیر صنعت]] رہے۔ اسی سن میں [[وزیراعظم]] [[ملک فیروز خان نون|فیروز خان نون]] کی [[حکومت]] میں [[صنعت]]، [[تجارت]] اور [[وزارت پارلیمانی امور (پاکستان)|پارلیمانی امور]] کے [[وزیر]] رہے اور [[18 مارچ]] [[1958ء]] میں [[مغربی پاکستان]] کے [[وزیر اعلى|چیف منسٹر]] مقرر ہوئے اور [[اسکندر مرزا|سکندر مرزا]] کے [[فوجی قانون|مارشل لاء]] تک اس عہدے پر تھے۔ پھر [[ایوب خان]] کی [[حکومت]] کے خاتمے کے بعد [[منصب جامع|جنرل]] [[یحییٰ خان|یحییٰ]] کے [[فوجی قانون|مارشل لاء]] میں [[نواب]] [[مظفر علی خان قزلباش|مظفر علی خان]] [[4اگست]] [[1969ء]] سے [[22 فروری]] [[1971ء]] تک [[وزیر خزانہ پاکستان|وزیر خزانہ]] رہے۔<ref>https://www.islamtimes.org/ur/article/318925/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%AF%D9%88%D8%A6%D9%85</ref>.<ref>اسلام ٹائمز، تحریر: سید [[صفدر ہمدانی]]، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر</ref>
 
[[1958ء]] کے بعد سے اب تک اس جلوس کا راستہ یہ ہے کہ نثار حویلی سے نکلنے کے بعد محلہ چہل بیبیاں سے ہوتا ہوا محلہ شیعاں کی [[مسجد]] میں پہنچتا ہے جہاں [[اذان]] اور [[نماز]] [[فجر]] کے بعد [[زنجیر زنی]] ہوتی ہے۔ یہاں سے یہ جلوس چوہٹہ [[مفتی محمد باقر لاہوری|مفتی باقر]]، [[وزیر خان چوک|چوک]] [[مسجد وزیر خان]]، [[کشمیری دروازہ|کشمیری بازار]]، ڈبی بازار، چوک [[رنگ محل]]، گمٹی بازار، [[پانی]] والا [[تالاب]]، تحصیل بازار اور بازار حکیماں سے ہوتا ہوا گامے شاہ پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ بازار حکیماں وہی جگہ ہے جہاں [[1933ء]] اور [[1935ء]] کے درمیان سر [[مراتب علی شاہ]] نے امام باڑہ سیدہ مبارک بیگم تعمیر کروایا جہاں [[لاہور]] کی قدیمی اور معروف مجالس منعقد ہوتی رہیں اور یہ سلسلہ تا دم تحریر جاری ہے۔ اسی علاقے میں [[کوچہ]] [[فقیر خانہ|فقیر خانے]] میں امام باڑہ فقیر سید حسن الدین بھی معروف ہے۔ شہر کے اندر ہی اندر اس جلوس کے نکلنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ 3 یا 4 بار بہت شدید [[شیعہ]] [[سنی]] فسادات اسی جلوس کے موقع پر اندرون شہر میں ہوئے۔ [[1963ء]] میں [[بھاٹی دروازہ|بھاٹی دروازے]] کی [[اونچی مسجد]] سے [[ذوالجناح]] پر اینٹوں کی [[بارش]] کی گئی جس سے کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور [[لاہور]] [[شہر]] کی فضا کافی عرصے تک خراب رہی۔
 
ایک [[زمانہ]] تھا جب [[لاہور]] میں واحد [[ذوالجناح]] [[نواب]]ین کا تھا لیکن پھر الف شاہیوں اور آغا شاہ زمان نے بھی [[ذوالجناح]] رکھنے شروع کیے اور [[2008ء]] میں [[لاہور]] میں [[60 (عدد)|60]] سے زیادہ [[ذوالجناح]] تھے اور [[شہر]] میں [[7 محرم]] کو [[7 (عدد)|7]] [[ذوالجناح]] نکلنے کی [[روایت]] بدستور قائم ہے۔ [[لاہور]] [[شہر]] کے طول و عرض میں [[1000 (عدد)|1000]] سے زیادہ مقامات پر مجالس [[امام حسین]] کا سلسلہ [[محرم (مہینہ)|محرم]] کی پہلی [[رات|شب]] سے شروع ہو کر [[اربعین|چہلم امام]] تک جاری رہتا ہے اور اسی طرح [[لاہور]] میں کربلا گامے شاہ بھی [[محرم (مہینہ)|محرم]] کی مجالس کا ایک مرکزی [[نکتہ]] ہے۔ [[موچی دروازہ]] میں مبارک اور نثار حویلی اور وسن پورہ کی [[مسجد]] علامہ حائری کے علاوہ ہزاروں عزاء خانوں میں سے چند نام اس طرح ہیں۔ رباط حیدریہ [[موچی دروازہ]]، حسینہ حال جس کا پرانا نام امام باڑہ تکیہ نتھے شاہ تھا، امام باڑہ ارسطو جاہ رجب، امام باڑہ سید واجد شاہ، امام باڑہ کشمیریاں، امام باڑہ شیر گڑھیاں، امام باڑہ غلام علی اور ڈپٹی غلام حسن، امام باڑہ رضا شاہ صفوی، امام باڑہ ایوب شاہ، امام باڑہ لال حویلی، امام باڑہ خواجگان نارووالی، امام باڑہ جعفر علی میر، امام باڑہ قصر سکندر، امام باڑہ غریب نینوا، امام باڑہ امیر پہلوان اور اکبر شاہ، امام باڑہ سیدے شاہ اور خواجہ علی محمد، امام باڑہ بازار حکیماں اور تکیہ میراثیاں، امام باڑہ مائی عیداں، حسین منزل، [[مبارک بیگم]]، کاشانہ رضویہ، گامے شاہ، ایرانیاں، حسینیہ پاک نگر، مرزا نتھا، [[ڈاکٹر]] ریاض علی شاہ (جہاں [[لاہور]] میں [[صبح]] کی سب سے پہلی [[مجلس]] ہوتی ہے) امام باڑہ علی مسجد، قصر حسن، مسجد نور، رشی بھون، شیخ سعادت علی، [[سید]] [[اظہر حسن زیدی]]، عطیہ اہلبیت، دربار حسینی، بھوگیوال، ریلوے بیرکس، [[بی بی پاکدامن|بی بی پاک دامناں]]، قصر زہرہ، آغا شاہ زمان، امام باڑہ مظفر علی شمسی، [[حافظ]] [[کفایت حسین]]، [[کرنل]] فدا حسین، سجادیہ، خواجہ ذو الفقار علی، امامیہ ہال، خیمہ سادات، بیت السادات، باغ گل بیگم، قصر بتول، [[سید]] [[شوکت حسین رضوی]]، سادات منزل، گلستان زہرا، خانہ زینبیہ، نجف منزل، شاہ نجف گلبرگ، [[اسد بخاری]]، میڈم [[نور جہاں (گلوکارہ)|نور جہان]]، مراتب علی شاہ، علی رضا آباد، کلسی ہاؤس، زیدی ہاؤس، پانڈو اسٹریٹ، بلاک سیداں، بلتستانیہ، [[جامعۃ المنتظر]]، سیٹھ [[نوازش علی]]، کوٹھے پنڈ، مرزا محمد عباس، مومن پورہ، [[باٹاپور]]، [[سید]] [[حسن عباس زیدی]]، [[وجاہت عطرے]]، [[عالم شاہ]]، سیدن شاہ، جیا موسٰی، کٹرہ ولی شاہ، الف شاہ [[دہلی دروازہ|دلی دروازہ]]، سوڈیوال، شاہ خراسان، محلہ داراشکوہ، حویلی میاں خان، لال پُل مغلپورہ اور کاشانہ شیخ دولت علی۔
 
[[لاہور]] میں [[اردو]] مجالس کے علاوہ [[فارسی زبان|فارسی]]، [[عربی زبان|عربی]]، [[پنجابی زبان|پنجابی]] اور [[کشمیری زبان|کشمیری]] مجالس کا بھی رواج رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ختم ہو چکا ہے یا پھر شاید کسی ایک جگہ پر جاری ہو۔ کشمیری مجالس کا رواج تو ابھی ستر کے عشرے کے آواخر تک خوب تھا اور [[کشمیری زبان|کشمیری]] ذاکرین میں موسیٰ شاہ اور احمد علی کو بہت مقبولیت تھی۔ اسی طرح [[لاہور]] میں جن [[علماء]] نے اپنے [[علم]] و فضل کے چراغ روشن کیے ان میں مہدی خطائی، ملا ابراہیم، ملا معصوم، ملا فقیر اللہ، عماد الدین، راجو بن حامد، ابوالقاسم حائری، سید علی الحائری، شیخ عبدالعلی ہروی تہرانی، آغائے بارھوی، ارسطو جاہ سبزواری، شمس العلماء سید سردار حسن، علامہ ابن حسن نو نہروی، علامہ ہندی، سید کلب حسین، ضمیر الحسن نجفی، حافظ [[کفایت حسین]] اور [[لکھنؤ]] کے علامہ [[سید علی نقی نقوی نجفی|نقی عرف نقن]] میاں، حافظ ذو الفقار علی، مولانا [[اظہر حسن زیدی]]، فاتح ٹیکسلا مولانا بشیر، ابن حسن نجفی، مرزا یوسف حسین اور ضامن حسین، مولانا ظفر مہدی، حافظ سیف اللہ، [[اسماعیل دیوبندی]]، مرتضیٰ حسین فاضل، نصیر الاجتہادی، [[مفتی جعفر حسین]]، مولانا اختر عباس، علامہ طیب الجزائری، مولانا اکبر عباس اور افسر عباس، سید محمد جعفر زیدی، محبوب ہمدانی اور سید ظفر حسین کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی فہرست میں ایک نام غلام الحسنین ‘‘پنڈت نیک رام‘‘ کا ہے جنہیں سننے کی سعادت ہمیں بھی نصیب ہوئی۔ عشق شبیر کی لو کب اور کہاں بھڑک اٹھے کچھ علم نہیں ۔ اسی کا اعجاز پنڈت نیک رام تھے جو [[ہندو]] سے [[شیعہ]] ہوئے تھے اور پھر انہوں نے اپنی ساری زندگی فضائل و مصائب آل محمد بیان کرنے میں گزار دی۔
 
اسی طرح سے لاہور میں، ذاکرین، مرثیہ نگاروں، شعرائے اہلبیت، سلام ،سوز اور نوحہ خوانوں کی بھی ایک نہایت طویل فہرست ہے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منظور حسین برا، ریاض حسین موچھ، سائیں اختر حسین، حامد علی بیلا، بشیر علی ماہی، رجب علی، سید ناصر جہان، نذر حسین، پرویز مہدی، میر ناظم حیسن ناظم، شکور بیدل، اداکار محمد علی، منظور جھلا، سید نازش رضوی، آفتاب حسین لکھنوی، فیروز علی کربلائی، مشیر کاظمی، فیروز علی کربلائی، ظہور حیدر جارچوی، کاظمی برادران، سہیل بنارسی، سید جرار حسین، سید محسن علی، امانت علی، فتح علی، پیارے خان، حسین بخش گلو، چھوٹے غلام علی، شوکت علی، غلام علی، ڈاکٹر صفدر حسین، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حکیم احمد شجاع، قیصر بارھوی، وحید الحسن ہاشمی، پروفیسر مسعود رضا خاکی، میر ناظم حسین ناظم، سیف زلفی، ظفر شارب، جعفر طاہر، جوش ملیح آبادیآبادی، اور ایسے ہی کتنے ناموں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔وغیرہ۔
 
<ref>https://www.islamtimes.org/ur/article/318927/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%B3%D9%88%D8%A6%D9%85</ref>.<ref>اسلام ٹائمز، تحریر: سید [[صفدر ہمدانی]]، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر</ref>
مرثیہ تحت اللفظ کے بعد اب جیسے علما اور جید خطبا کا عہد ختم ہو چکا ہے اور مجالس پڑھنے والوں میں کمرشل ازم کے رواج نے علمی اور فکری مجالس کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب محرم کی مجالس میں مقبول ذاکروں، نوحہ خوانوں کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹیں اور سی ڈیز بڑی تعداد میں رواج پا گئی ہیں اور پہلی محرم سے کیبل آپریٹرز نے چند چینلوں کو دن رات کے لیے مسلسل مجالس اور نوحہ خوانی کے پروگراموں کے لیے مخصوص کر دیا ہے جو محرم کی تقریبات میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اسی طرح ٹی وی چینل اور ایف ایم ریڈیو کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بھی ریکارڈ شدہ مجالس کے ساتھ ساتھ براہ راست یعنی لائیو مجالس کا نشر کرنا بھی رواج پا گیا ہے۔ محرم کی مجالس کا بنیادی پہلو تو مذہبی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کہ لاہور شہر کی تہذیبی روایات بھی اس میں گہری پیوست ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی نذر نیاز اور لاکھوں لوگوں کے شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کےلیے ٹرانسپورٹ کے استعمال سے کاروبار کو جو فروغ ملتا ہے وہ اس کا ضمنی پہلو تو ہے لیکن کم اہم نہیں۔<ref>https://www.islamtimes.org/ur/article/318927/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%B3%D9%88%D8%A6%D9%85</ref>.<ref>اسلام ٹائمز، تحریر: سید [[صفدر ہمدانی]]، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر</ref>
 
== حوالہ جات ==