"عیسی چرن صدا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏تعارف: نیا صفحہ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
 
م خودکار: درستی املا ← سر انجام، ز\1، پزیر، ہو گئے، لکھنؤ، شعرا؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 5:
 
== ابتدائی حالات ==
عیسی چرن نے بچپن میں ایک مکتب سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے کیونکہ والد صاحب 1881ء میں فوت ہوگئےہو گئے تھے۔ فارسی کے بعد انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لیے سینٹ جانس کالج آگرہ میں داخلہ لے لیا۔ کالج میں ہی عیسی چرن کو مسیحی تعلیم سے واقفیت ہوئی۔ وہ اس تعلیم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کالج کے پرنسپل سے بتسپمہ لے کر مسیحت قبول کر لی۔ مسیحیت قبول کر کے اپنا نام دیبی پرشاد سے عیسی چرن رکھ لیا۔ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرنگ مشن اسکول ضلع بٹالہ امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ اس اسکول سے انٹرنس کا امحتان پاس کیا۔ اس کے بعد مذید تعلیم کے لیے باقاعدہ داخلہ نہیں لیا۔
 
== ملازمت ==
عیسی چرن 1892ء میں لکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ میں مشن کی ملازمت کر لی اور تعلیمی خدمات سرانجامسر انجام دینے لگے۔ اس کے بعد جلد ہی شادی کر لی۔ 1902ء میں مشن کی ملازمت ترک کر دی اور اس سے مستعفی ہو گئے۔ 1904ء میں اناؤ گورنمنٹ اسکول میں استاد کی ملازمت اختیار کر لی۔ جلد ہی عیسی چرن کو ترقی مل گئی اور 1904ء میں ہی ضلع لکھنؤ کے سب ڈپٹی انسپکٹر کا عہدہ مل گیا۔ اس کے بعد فنچور میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ اپریل 1925ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہوگئےہو گئے اور اس وقت یہ شعر کہا
{{شعر آغاز}}
{{ب|خیر و خوبی سے ہوا ختم میرا کام خدا | مجھ سے محمود ہمیشہ ہو نام تیرا خدا}}
سطر 35:
# '''فردوس گمشدہ''' جو ملٹن کی کتاب '''پیرا ڈائس لوسٹ''' کا منظوم ترجمہ ہے 1914 اور دوبارہ 1924ء میں شائع کیا گیا۔
# '''سمسون فخروں''' جو ملٹن کی دوسری کتاب '''سمسن اگونسٹس''' کا منظوم ترجمہ ہے 1924ء میں شائع کیا گیا۔
# '''نغمہائے صدا''' کی اشاعت 1928ء میں ہوئی۔ یہ کتاب نظموں پر مشتمل ہے۔
* بقول سید فخر موہانی وارثی مالک و مدیر رسالہ جام جہاں نما لکھنولکھنؤ '''عیسی چرن صدا نے نغمائے صدا کو شائع کر کے ملک و قوم، انسان کی اخلاقی، معاشرتی اور تمدنی اصلاحات کے لیے ایک ایسا دستور عمل مرتب کیا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے انسان صحیح معنوں میں انسان کہے جانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اس کی نظمیں مصنف کی دلی جذبات، عادات و اخلاق اور طرز عمل کا آئینہ ہے۔ قومی محبت اور بادشاہ وقت سے وفاداری کا نقشہ اپنی تحریروں میں اس طرح کھینچا ہے کہ دل بغیر متاثر اور اثر پذیرپزیر ہوئے نہیں رہے سکتا۔ ملک و قوم کی مروجہ برائیوں ذرزر پرستی، زن مریدی، بت پرستی وغیرہ کی مکروہ تصویر دیکھا کر اس درجہ ان افعال قبیحہ منفض سے کیا ہے کہ ہرکس و ناکس از خود ان سے کنارہ کش ہو جائے۔ علاوہ ازیں دیگر اخلاقی مضامین کو نظم کر کے کتاب کی رونق کو دوبالا کر کے دکھایا ہے۔ <ref>https://www.rekhta.org/ebooks/urdu-ke-maseehi-shoara-ebooks?lang=ur</ref> <ref>اردو کے مسیحی شعراءشعرا مولف ڈی اے ہیریسن قربان صفحہ 85 تا 88</ref>
 
== حوالہ جات ==