"شیر خوار جانور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
شیر خور جانور
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 21:57، 6 نومبر 2019ء

شیر خوار نسل حیوانی دنیا کی سب سے اعلی نسل ہے اور خود انسان بھی اس جنس میں شامل ہے۔ یہ اپنی خوبیوں اور ساخت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ ہیں۔ یہ اس انسان کے لیے سب سے نفع بخش ہیں۔ مثلاً گائے، بھینس اونٹ اور گھوڑا وغیرہ۔ ان سے دودھ، گوشت، اون اور باربرادری وغیرہ کے سیکڑوں فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ان جانوروں میں مادہ کے تھن ہوتے ہیں۔ جن سے وہ اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ یہ ان جانوروں کی خصوصیت ہے اور کوئی اور جانور اپنے بچوں کی پرورش دودھ سے نہیں کرتے ہیں۔ ان جانورں میں حرارت ہوتی ہے۔ ان کے دوسری خصوصیت یہ انڈے نہیں بچے دیتے ہیں۔ لیکن ایک قسم ایسی ہے جو اس کلیہ سے مبرا ہے۔

تقسیم

اس جنس میں گوشت خور Carnivorous، سبزی خور Herbivorus، میوہ خور Grugivirius اور کرم خور Insectivorous  جانور شامل ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو ہر چیز بلاتکلف Omnivorous کھاکر زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔ ان جانوروں کے مطالعہ کے لیے ان کو پانچ گروہ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ حصہ Division ، جنس Class ، طبقہ Order ، خاندان Family ، نوع Gemus ، صنف Species ، فرد  Variety

  1. حصہ Division

ہر طبقہ کے جانور بعض خوصیات کی بنا پر طبقوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ مثلاً جگالی والے جانور، تھیلی دار جانور، گوشت خور جانور۔

  1. جنس Class

اس کے علاوہ ہر طبقہ میں چند جنسیں ہوتی ہیں۔ مثلاً گوشت خور جانور، بلی کی جنس، کتے کی جنس، بھالو وغیرہ۔ یہ سب جانور گوشت خور ہیں لیکن ان میں تفریق آسانی سے کی جاسکتی ہے،

  1. طبقہ Order

ہر جماعت میں مختلف نوع کے جانور شامل ہوتے ہیں۔ ان بہت کچھ مشترک ہونے ساتھ ان میں تفریق بھی ہوتی ہے۔ مثلاًً بلی ، ببر شیر، شیر، تیندوا مختلف نوع کے جانور ہیں۔

  1. صنف Species

اس طرح ایک ہی خاندان کے جانوروں میں بھی تفریق ہوتی ہے۔ مثلاً لکڑبھگے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک کے جسم پر دھاریاں ہوتی ہیں اور دوسری کے بدن پر گل یا دھبے ہوتے ہیں۔ یہ ان کی صنف مانی جاتی ہیں

  1. خاندان Family

ایک ہی صنف کے جانوروں میں رنگ، شکل، صورت اور قد وغیرہ میں آب و ہوا اور عادتوں کی وجہ سے بھی فرق ہوجاتا ہے۔ یہ خاندان کہلاتے ہیں۔

  1. فرد  Variety

دنیا کا ہر جانور تغیر پزیر ہے مگر پالتو جانورں میں یہ تبدیلیاں جلد ہوجاتی ہیں۔ یہ زیادہ تر انسانی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔

مطالعہ

ماہرین نے شیرخوار جانوروں کے مطالعہ کے لیے مختلف طریقون سے مدد لیتے ہیں۔ ہاتھ پیروں کی ساخت دانتوں کی ساخت اور ترتیب سے یہ مطالعہ کیا جاتا ہے۔ شیر خوار جانورں کے مطالعہ کے لیے دو بڑے حصوں پہلا نال Placental کے ذریعے، دوسرا بغیر نال کے Implacental ہیں۔ ایک مکمل حالت میں پیدا ہوتے اور دوسرے نامکمل حالت پیدا ہوکر ایک تھیلی میں ماں کے دودھ پر پرورش پاتے ہیں۔

نال کے ذریعے پیدا ہونے والے جانوروں کے دانتوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض کے منہ میں چاروں قسم کے دانت ہوتے ہیں۔ ان میں بندر م چمکادر اور خشکی کے گوشت خور جانور ہیں۔ یہ جانور جن میں انسان بھی شامل ہے شیرخوار جانوروں میں سب سے اعلیٰ ہیں۔

بعض جانوروں میں صرف دو قسم کے دانت ہوتے ہیں۔ ان میں چوہے گلہری، بارہ سنگے، بھیڑ، گائے اور بھینس وغیرہ۔ یہ زیاد تر سبزی خور جانور ہیں۔  

بعض جانوروں میں صرف ایک قسم کے دانت ہوتے ہیں۔ ان میں وہیل اور دوسرے سمندری جانور شامل ہیں۔

دانتوں کی بناوت کو دیکھ کر نال والے جانوروں کی تین علحیدہ علحیدہ طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

(۱) چہار دستی

چار دستی طبقہ میں بن مانس، بندر اور لیمور Lemur کی صنفیں شامل ہیں۔ ان کو اعلیٰ مرتبہ دیے جانے کی وجہ ان کا انگوٹھا انگلیوں سے مل سکتا ہے اور اس سے وہ ہاتھوں کا بہت استعمال کرسکتے ہیں۔

(۲) چمکادر

چمکادروں کے ہاتھ اور بازو ایک جھلی سے منڈھے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ان میں اڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے،  

(۳) ادنیٰ

نال والے باقی جانور ادنیٰ Secondates مانے جاتے ہیں۔ ان کے بدن پر دو قسم کے بال ہوتے ہیں۔ اوپر بڑے بالوں کے علاوہ اندر رواں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی دو طبقوں میں تقسیم ہیں۔   

گوشت خور

ادنیٰ گوشت خور Carnivora طبقہ میں خشکی کے شکاری درندے شامل ہیں۔ مظبوط کیلے اور ڈارھیں ان کی خصوصیت ہے۔ دو حصہ میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔  

کرم خور

کرم خور یا کیڑے خور طبقہ میں کچھ چھوٹے چھوٹے جانور شامل ہیں۔ جن کی خوراک کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کی ڈارھوں پر چھوٹی چھوٹی نوکیں بن ہوتی ہیں اور دانتوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔

نال

بچوں کی پرورش رحم میں نال کے ذریعے ہوتی ہے صرف دو خاندان میں اس کے برعکس ہوتا ہے (۱) یکروزنہ خاندان Monotremata (۱) تھیلی دار خاندان Marsupis۔

یکروزنہ خاندان Monotremata

یکروزنہ خاندانMonotremata خاندان کی مادہ انڈے دیتی ہے اور جب بچے نکل آتے ہیں تو تھن کے دودھ سے بچے پرورش پاتے ہیں۔

تھیلی دار خاندان Marsupis

تھیلی دار خاندان Marsupis کے بچے ماں کے رحم سے نامکمل حالت میں پیدا ہوتے ہیں اور ماں کی تھلیون میں تھنوں کے دودھ سے پرورش پاتے ہیں۔

بعض شیر خوار جانوروں کے بچوں کی آنکھیں پیدائش کے وقت بند ہوتی ہیں۔ وہ لاچار اور بے بس پیدا ہوتے ہیں۔ کسی کے بچے جلد چلنے پھرنے لگتے ہیں پیٹ بھرنے کی خود ہی فکر کرلیتے ہیں اور بعض کے بچے کئی سال کے بعد اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی خوراک خود تلاش کرسکیں۔

بال

دودھ دینے والے جانوروں جسم میں تھوڑے بہت بال ضرور ہوتے ہیں اور بالوں کا ہونا ان کی خاص علامت ہے۔ جن کے بدن پر بال نہیں ہوتے ان کے بھی کچھ بال ہوتے ہیں۔ مثلاً وہیل کے منھ پر کچھ بال یا مونچھیں ہوتی ہیں۔ بعض اسیے جانور ہوتے ہوتے جن کے بال کے بجائے اون ہوتی ہے جو کہ بالوں کی ایک قسم ہے۔ اون اکثر سرد ممالک کے جانوروں کے جسموں پر انہیں حرارت مہیا کرتی ہے۔ بالوں کا خاص مقصد ان کی حرارت سے حفاظت کرنا۔  

بال بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو کبھی نہیں گرتے ہیں مثلاً گھوڑے کی عیال کے بال۔ بعض کے بال معینہ مدت کے بعد گرجاتے ہیں اور اس کی جگہ دوسرے بال نکل آتے ہیں۔ شیر خوار جسم کے جانوروں پر اکثر اسی قسم کے بال ہوتے۔

بعض کے بدن پر بالوں کے بجائے موٹے کانٹے ہوتے ہیں مثلاً سہی۔ اس طرح بعض جانورں پر موٹے چلکے ہوتے ہیں مثلاً پنگولین۔ بال، اون، سمور، کانٹے  اور چلکے اصل میں ایک چیز ہے اور ان شکل، بناوٹ، لمبائی موٹائی اور نرمی و سختی کا فرق ہے۔

سینگ

شیر خوار جانوروں کے سر پر اکثر سینگ ہوتے ہیں۔ جو اکثر ہڈی سے بنے ہوتے ہیں اور بعض جانوروں کے عارضی سینگ Antlers بعض مثلاً بارہ سنگھہ کے ہر سال گر کر نئے نکلتے ہیں۔ اکثر جانوروں کے سینگ مستقل Hwrns ہوتے ہیں اور ہمیشہ رہتے ہیں۔ اس کے اندر ایک ہڈی ہوتی ہے جس کے اوپر ایک خول چڑھا رہتا ہے۔ یہ خول ماہیت میں بال ہی ہے۔  

بعض جانورون کے سنگ بالوں سے بنے ہوتے ہیں۔ مثلاً گینڈے کی ناک پر ایک یا دو سینگ ہوتے ہیں، ان میں ہڈی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ یہ بالوں سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ بال ایک لعاب دار مادے سے سینگ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ سینگ ناک کی ہڈی سے علحیدہ ہوتا ہے۔

دانت

دودھ سینے والے جانوروں کے منہ میں کسی نہ کسی قسم کے دانت ہوتے ہیں گو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کسی قسم کے دانت نہیں ہوتے ہیں۔ ماہرین کے نذدیک یہ دانت جسم کا اہم حصہ ہیں کیوں کہ ان تعداد، شکل اور ساخت سے جانور کی نوعیت کا آسانی سے لگ جاتا ہے۔ مختلف خاندان Families اور نوعوں Genera کی اور بعض حالتوں میں مختلف اصناف Species کے دانتوں میں فرق پایا جاتا ہے اور جانوروں کی مختلف باہمی مشاہبت اور تفریق آسانی سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان جانوروں کے دانت غذا کو چبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرنے سے ہم جانور کی نوع وغیرہ کا اور اس کی غذا اور غذا کے ذریعہ سے اس کی بہت سی عادتوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ دانت چار قسم کے ہوتے ہیں

(1) کاٹنے والے دانت Ineisors

(2) کیلے   Canines

(3) دودھ والی ڈارھیں Pre-molars

(4) ڈارھیں Molars

کاٹنے والے دانت Ineisors

یہ دانت سامنے اور چھینی کی طرح دھار والے ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد چھ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے مگر بعض تھیلی دار جانوروں میں یہ آٹھ اور دس بھی ہوتے ہیں۔ یہ دانت سامنے اور چھینی کی طرح دھار والے ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد چھ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے مگر بعض تھیلی دار جانوروں میں یہ آٹھ اور دس بھی ہوتے ہیں۔ جگالی کرنے والے جانورں اوپری جبڑے میں کاٹنے والے دانت نہیں ہوتے ہیں۔ ایڈونٹیٹ Edentates جانوروں میں نیچے یا اوپر کوئی کاٹنے والا دانت نہیں ہوتا ہے۔ اکثر دونوں جبڑوں میں کاٹنے والے یکساں ہوتی ہے۔ لیکن بعض جانور مثلاً چمکاڈر یا کانگرو میں اوپر یا نیچے کی کاٹنے والے دانتوں کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔

کیلے   Canines

یہ کیلے اکثر نوکیلے ہوتے ہیں اور کاٹنے والے دانتوں کی قطار کے دونوں جانب ایک ایک کیلا ہوتا ہے۔ اکثر یہ کاٹنے والے دانتوں سے کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں۔ ان دانتوں کا کام شکار کو مظبوطی سے گرفت میں لانا ہے۔ اس لیے شکاری جانوروں میں کیلے بڑے ہوتے ہیں۔ بعض جانوروں میں کیلے نہیں ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض جگالی کرنے والے جانوروں میں بعض میں صرف نر کے کیلے ہوتے ہیں مادہ میں نہیں ہوتے ہیں اور بعض جانوروں کیلے بہت زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ مثلاً سور کے منہ سے باہر نکلے ہوتے ہیں۔  

دودھ والی ڈارھیں Pre-molars

یہ کیلوں کے بعد ہوتی ہیں۔ ان میں اور اصل ڈارھوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ یہ پہلے دودھ کے دانتوں کے ساتھ نکلتی ہیں اور اصل ڈارھیں بعد میں نکلتی ہیں۔ دودھ کے دانتوں میں صرف کاٹنے والے دانت اور اور ڈارھیں ہوتی ہیں۔ یہ دانت اور ڈارھیں گرجاتی ہیں اور ان کی جگہ مستقل دانت نکلتے ہیں۔

دودھ کی ڈارھوں کی شکل اور سائز میں فرق ہوتا ہے۔ بعض پر ایک نوک اور بعض پر دو نوکیں ہوتی ہیں۔ ان سب کے پیچھے والی دودھ والی ڈارھ یا قینچی نما ڈارھ Feledoe, Scissors Carnassial Tooth کہتے ہیں۔ یہ آپس میں قینچی کی طرح رگڑ کھاتی اور گوشت کو ریزہ ریزہ کرکے چبانے میں مدد دیتی ہیں۔ بلی کے خاندان میں یہ ڈارھیں خاص طور پر بڑی ہوتی ہیں۔ بعض جانوروں میں دودھ کی ڈارھیں نہیں ہوتی ہیں۔ کترنے والے جانوروں میں دودھ کی ڈارھیں نہیں ہوتی ہیں۔

ڈارھیں Molars

یہ دانتوں کی قطار میں سب سے پیچھے ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد جانوروں کی غذا کے مطابق کمی و بیشی ہوتی ہے۔ جبڑے میں کسی جانب چار سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ سبزی خور جانوروں میں ان ڈاروھوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور گوشت خور جانوروں کی نسبت بڑی ہوتی ہیں۔ کیوں کہ سبزی خور جانوروں کو گھاس پودوں کی بڑی مقدار چبانی پڑتی ہے۔ جب کہ گوشت خور جانوروں میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ان میں ڈھاڑھیں کم ہوتی ہیں۔ مثلاً بلی کے خاندان کی دونوں طرف ایک ایک ڈارھ ہوتی۔ بعض ایسے جانور بھی ہوتے ہیں جن کی ڈارھیں نہیں ہوتی ہے۔ مستقل ڈارھیں گرنے کے بعد دوبارہ نہیں نکلتی ہیں۔ مگر ہاتھی کی ڈارھیں گس جاتی ہیں تو ان کے پیچھے ایسی ہی ڈارحیں نکل جاتی ہیں اور پرانی ڈارھ کے گرنے پر اس کی جگہ پر دوسری ڈارھ قبضہ کرلیتی ہے۔  

نال والے جانور

بغیر نال کے جانوروں میں اختلافات کی بنا پر چار طبقوں (۱) کترنے والے Rodentia (۱) بلا دانت والے Edentia (۱) جگالی کرنے والے Ruminantia (۱) دبیر جلد والے Pachydermata میں۔  

(۱) کترنے والے Rodentia

ان جانوروں کے پنجے اور ناخون ہوتے ہیں اور ان کے صرف دو قسم کے دانت ہوتے ہیں۔ کچھ چھینی کی طرح دھاری دار اور کچھ چپٹی ڈارحیں۔

بلا دانت والے Edentia

ان جانوروں میں کاٹنے والے دانت اور کیلے نہیں ہوتی ہین اور بعض میں کوئی دانت نہیں ہوتا ہے۔ سامنے کوئی ڈانت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا منہ پوپلا معلوم ہوتا ہے۔

ان کی بقیہ صنفون میں پنجے اور ناخون نہیں بلکہ خر ہوتے ہیں اور کھر والے جانور دو طرح کے ہوتے ہیں۔

(۱) جگالی کرنے والے Ruminantia

جگالی کرنے والے جانور کے کھر کے دو حصے ہوتے ہیں، سوائے اونٹ کے۔ ان میں اوپر جبڑے میں کاٹنے والے دانت نہیں ہوتے ہیں اور ڈارھیں بھی چپتی ہوتی ہیں۔

دبیر جلد والے Pachydermata میں۔

دبیر جلد والے جانوروں کے طبقہ میں وہ جانور شامل ہیں جو جگالی نہیں کرتے ہیں اور کھر ہوتے ہیں۔ ان کی شکلوں اور صورت میں اختلاف ہے اور ان میں کوئی ایسی خصوصیات نہیں ہے کہ انہیں کسی ایک طبقہ میں داخل کیا جائے۔

تیسرے حصہ انسوڈان شیا میں وہ سمندر جانور ہیں جو گوشت خور نہیں ہیں اور ان کے تمام دانت ایک ہی شکل کے ہوتے ہیں۔ اس میں صرف ایک طبقہ ستے شیا Cetacca شامل ہے۔

وہ سمندر جانور جو سائی رینیا Sirenia کے نام سے ہیں اور سبزی خور مانتے ہیں انہیں بھی دبیر جلد والوں میں شامل کرتے ہیں۔ اور گوشت خور سمندری جانور کو پیڈیا کو خشکی کے گوشت خور جانوری کے طبقہ شامل کرتے ہیں۔ لیکن اکثڑ ان دونوں قسم کے سمندری جانوروں کو علحیدہ طبقوں میں شامل کرتے ہیں۔  

ٹانگیں

اکثر شیر خوار جانوروں کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں۔ لیکن سمندری جانوروں کی صرف دو اگلی ٹانگیں ہوتی ہیں اور وہ بھی کشتی کے ڈنڈوں کی طرح۔ جس سے انہیں تیرنے میں مدد ملتی ہے۔ پچھلی ٹانگوں کا کام دم کرتی ہے، ان جانوروں کی پہلے پچھلی ٹانگیں ہوتی تھیں، مگر ان کے کام نہیں لینے کی وجوہ سے غائب ہوگئیں۔ بعض جانوروں مثلاً وہیل میں اندر پتھوں میں ہڈیاں پائی جاتی ہیں۔ جو کہ ٹانگوں کی پہلے وجود کی دلیل ہیں۔ شیر خوار جانوروں کے جانوروں کی ٹانگیں ان کی ضروریات کے مطابق وجود میں آئیں ہیں۔

ناخن

بعض کی انگلیوں پر ناخن ہوتے ہیں اور یہ ناخن سیدھے یا خمدار اور تیز یا کند ہوتے ہیں۔ بلی اور اس کی جنس کے جانوروں کے ناخنوں کی نوک عموماًً گوشت کی گدی پر چھپے ہوتے ہیں اور چلنے میں سے یہ تکلیف نہیں دیتی ہے۔ ضرورت کے وقت پنجے کو حرکت دیتے ہی ناخون کی نوک Retractile Claws فوراًً باہر نکل آتی ہے۔ بعض کے ناخن لمبے اور لمبے لیکن کند ہوتے ہیں۔ یہ زمین کھودنے کا کام کرتے ہیں۔

کھر

سبزی خور جانوروں کو پنجوں اور ناخونوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے پیروں میں کھر ہوتے ہیں۔ کچھ جانوروں کے کھر جفت ہوتے ہیں۔ مثلاً سور، دریائی گھوڑا اور ہرن وغیرہ۔ ان کے ہر کھر میں دو یا چار تہہ ہوتی ہیں اور بعض طاق کھر والے ہوتے ہیں۔ ان کھروں (کم از کم پچھلے پیروں میں) طاق ہوتی ہے۔ یعنی ہر پیر میں ایک یا تین یا پانچ کھر ہوتے ہیں۔ تھپر، گینڈا وغیرہ طاق کھر والے ہوتے ہیں۔ گھوڑے کے کھر غیر مستقم سم ہوتے اور یہ ڈورنے کے لیے نہایت موزوں ہیں۔

جھلی

شیر خوار جانوروں میں صرف چمکادر ہوا میں اڑ سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیاں پتلی اور نہایت لمبی ہوتی ہیں اور یہ اڑ سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیاں پتلی اور نہایت لمبی ہوتی ہیں اور ارتے وقت یہ چھتری کی تیلیوں کی طرح پرواز کے لیے جھلی کو پھیلا دیتی ہیں۔ بعض پانی میں رہنے والے جانوروں کی انگلیاں پھیلی ہوتیں ہیں اور سب ایک جھلی میں منڈھی ہوتی ہیں۔ ان کو اس سے تیرنے میں سہولت ہوتی ہے۔

زبان

شیر خوار جانوروں کے منہ میں زبان ہوتی ہے۔ جس سے یہ اپنی غذا کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ بعض کی زبان کھردری ہوتی ہے۔ بلی کے خاندان میں زبان پر تیز خار ہوتے ہیں جو ہڈی پر چپساں گوشت چھڑانے میں کار آمد ہوتے ہیں۔ بعض جانوروں کی زبان ربر کی طرح لمبی ہوسکتی ہے۔ چیونٹی کھانے والے جانوروں میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ وہیل کی زبان منہ میں پیوست ہوتی ہے اور باہر نکل نہیں سکتی ہے۔ جگالی کرنے والے جانوروں کی زبان میں گرفت کی قوت ہوتی ہے جو گھانس وغیرہ کو زبان سے پکڑ کر منہ میں پہنچاتے ہیں۔ شیر خوار جانوروں کے منہ کے آگے اکثر گد گدے لب ہوتے ہیں اور بعض کے گالوں میں عارضی طور پر غذا جمع کرنے کے لیے خانے بنے ہوتے ہیں۔ جس میں وہ اپنے بچوں کے لیے غذا رکھتے ہیں۔

تھن

اس جنس کے تمام جانور اپنے بچوں کی پرورش دودھ پلا کر کرتے ہیں۔ اس لیے مادہ کے تھن جو کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ ہوتے ہیں۔ یہ اکثر پیٹ پر ہوتے ہیں لیکن بعض کے رانوں کے درمیان اور بعض کے سینے پر ہوتے ہیں۔

نر و مادہ

شیر خوار جانوروں میں نر اور مادہ کی صورت اور وضع میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔ نر کسی قدر بڑا اور رنگ بھی اس کا مادہ سے مختلف ہوتا۔ بعض جانوروں کے نر اور مادہ کے رنگ میں فرق ہوتا ہے اور بعض کی گردن پر بال ہوتے ہیں۔ جگالی کرنے والے جانوروں کے نر پر اکثر بڑے سینگ ہوتے ہیں۔ مادہ کے سینگ ہوتے نہیں ہیں اور ہوتے ہیں تو اکثر بہت چھوتے ہوتے ہیں۔   

گاٹھیں

بعض جانوروں کے جسم پر گاٹھیں ہوتی ہیں اور ان میں سے بدبو دار مادہ خارج ہوتا ہے۔ اکثر گوشت خور جانوروں کی دم کے نیچے گاٹھیں ہوتی ہیں، جن میں سے نہایت بدبودار مادہ خارج ہوتا ہے۔ ہاتھی کی پیشانی پر گاٹھیں ہوتی ہیں جس میں سے موم کی طرح مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اکثر جگالی کرنے والے جانوروں کی آنکھوں کے نیچے گاٹھیں ہوتی یں اور ان میں سے کثیف مادہ نکلتا ہے۔ مشکی ہرن کی ناف میں ایک گلٹھی ہوتی ہے۔ اس میں مشک پیدا ہوتا ہے۔ بعض جانوروں کی گلٹیوں کا مادہ ایسا مکرو اور بدبودار ہوتا ہے کہ ناقابل برداشت ہوتی ہے اور کوئی قریب نہیں جاسکتا ہے اور وہ بدبو خارج کرکے اپنے دشمنوں کو بھگاتے ہیں۔ امریکہ کے اسکنک Skunk کی گلٹیوں کا مادہ اس قدر بدبودار ہوتا ہے بھی اس کے دشمن بھی لاچار ہوجاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

چال

شیرخوار جانوروں میں بعض اپنی انگلیوں کی گدیوں پر چلتے ہیں۔ مثلاً شیر، کتا اور بلی اور ان کے چلنے پر آہٹ نہیں ہوتی ہے۔ بعض اپنے پاؤں کے پورے تلوے پر چلتے ہیں۔ مثلاً ریچھ Plantigrade ۔ بعض دونوں کے درمیان چلتے ہیں وہ نہ پورے تلوے پر  بلکہ زمین پر تلوے کا کچھ حصہ ہی زمین پر رکھتے ہیں۔ مثلاً بجو، اود بلاؤ اور سیویت بلیاں۔  

قد و قامت

شیر جانوروں میں ایک دوسرے سے بہت فرق ہوتا ہے۔ چوہا، ہاتھی اور وہیل سب اسی جنس کے جانور ہیں۔ سمندری جانور اکثر جسیم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ پانی ان تیرنے مدد کرتا ہے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی ہے۔ درختوں پر رہنے والے اکثر جانور چھوتے قد کے ہوتے ہیں۔

دماغ

تمام حیوانات میں شیر خور جانوروں کا دماغ سب سے بڑا ہوتا ہے اور ان کی عقل بھی اعلیٰ ہوتی ہے۔ یہ اپنی ذہانت کو صرف اپنی حفاظت، خوراک کی تلاش، نسل اور اپنی قیام گاہوں تک محدود ہیں۔ 

قوت شامہ

شیر خوار جانوروں میں قوت شامہ اکثر اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ کمزور و ناتواں جانوروں کی ان کی حفاظت کرتی ہے، ریگستان میں اونٹ اپنی قوت شامہ کی بدولت پانی کا پتہ میلوں دور سے لگا لیتا ہے اور درندے بھی اسی کے ذریعے اپنی غذا تلاش کرتے ہیں۔

قوت سامعہ

ان کی قوت سامعہ بھی اکثر اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ اکثر جانوروں کے کان باہر نکلے ہوتے ہیں اور ان میں مڑنے اور حرکت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان کو جس سمت آواز آتی ہے وہیں کان موڑ لیتے ہیں۔ کمزور جانوروں کی قوت سامعہ بہت تیز ہوتی ہے۔

قوت باصرہ

ان جانوروں میں قوت باصرہ بھی ہوتی ہے۔ تاہم ان کے مقابلے میں پرندوں کی دیکھنے کی صلاحیت بہت اعلیٰ ہوتی ہے۔ چمکادر اور بعض کرم خور جانور کی آنکھیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں اور سورج کی روشنی میں کھل نہیں سکتی ہیں۔ بعض گوشت خور جانوروں کی آنکھیں تاریکی میں بخوبی دیکھ لیتی ہیں۔

قوت لامسہ

اکثر شیر خوار جانوروں میں قوت لامسہ اعلیٰ ہوتی ہے اور وہ معمولی سے معولی فرق کو محسوس کرلیتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہر جانور کے الگ الگ مقام ہیں، گھوڑا اپنے لبوں سے، گوشت خور موچھوں سے، ہاتھی اپنی سونڈ سے اور چمکاڈر اپنی پرواز کی جھلی سے محسوس کرتی ہے۔ یہ قوت چمکادروں میں نہایت اعلی ہوتی ہے۔

نظام ہاضمہ

اکثر شیر خوار جانوروں کا معدہ ایک سیدھی سادی تھیلی کی شکل کا ہوتا ہے۔ صرف جگالی کرنے والے جانوروں کا معدہ چار حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ اپنی غذا کو پہلے برائے نام چبا کر نگل جاتے ہیں اور معدے کی سب بڑی تھیلی میں جمع کرلیتے ہیں اور فراغت میں جگالی کرکے اس غذا کو دوسری تھیلی میں گولوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر یہ غذا منہ کی طرف آتی ہے اور جگالی کے ذریعے اسے خوب باریک ہو کر معدے کی تیسری تھیلی میں پہنچ جاتی ہے۔ وہاں سے غذا آخری تھیلی میں داخل ہوکر ہضم ہوتی ہے۔

رنگ و روپ

شیر خور جانوروں کو مختلف رنگوں میں آرائش خوراک کی تلاش اور حفاظت میں مدگار ہوتے ہیں۔ ان کی رنگت ان کے ماحول کی ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ کمزور جانور کو ان کے دشمن انہیں دور سے دیکھ نہیں سکتے ہیں اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔ اس مشابہت کو حفاظت عامہ Protectiv General Resemblance کہا جاتا ہے۔ اس وجہ سے جو جانور ان کی غذا ہوتے ہیں وہ دھوکا کھا کر قریب آجاتا ہے اور غذا بن جاتا ہے اور یہ مشابہت بطشی Aggerssive General Resemblance کہلاتا ہے۔

شیر ببر کا رنگ خشک و رتیلے میدانوں سے ملتا جلتا ہے، دھاری دھار زیبرا اپنی دھاریوں کی وجہ سے گھاس پھوس و جھاڑیوں میں درندوں کو دور سے نظر نہیں آتا ہے۔ اس طرح ہر جانور اپنے رنگ و روپ کی بدولت چھپ جاتا ہے یا اپنی غذا تلاش کرتا ہے۔ بہت سے جانوروں کا رنگ موسم کے ساتھ تبدیل ہوجاتا ہے۔ گرمیوں میں ان کا رنگ ان کے ماحول کے مطابق ان کے بال گرجاتے ہیں۔ موسم سرما آتے ہی برف باری سے پہلے ان کے نئے بال نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سرد علاقوں میں اکثر جانوروں کے رنگ سفید ہوتے ہیں اور خشک و گرم علاقوں کے جانوروں کے رنگ عموماً ذرد خاکی مائل ہوتا ہے۔ جہاں سبزہ ہوتا ہے وہاں کے جانوروں کے رنگ سبزی مائل ہوتے ہیں۔  

ماخذ

برجیش بہادر۔ عالم حیوانی