"گیندا لال ڈکشٹ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
←‏حالات زندگی: درستی املا
سطر 3:
 
== حالات زندگی ==
گیندا لال ڈکشٹ 20 نومبر، 1888ء کو موضع ٹبیسر، [[ضلع مین پوری]]، [[اتر پردیش]]، [[برطانوی ہندوستان]] میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ [[اوریا (شہر)|اوریا]] کے ڈی اے وی اسکول میں استاد تھے۔ معلمی کے زمانہ میں ہی [[آریہ سماج]] اور محب وطن سیاسی کارکنوں سے متاثر ہو کر انہوں نے برطانوی حکومت سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے شیواجی سوسائٹی کی تنظیم کی۔۔ [[دریائے چمبل]] اور [[دریاےدریائے جمنا]] کے بیچ کے علاقے میں دھوا مارنے والے ڈاکؤں کے گروہ سے تعلق قائم کیا اور انہیں ملک کی آادی کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔ انقلابی سرگرمیوں کے لیے ان کی تنظیم کی اور سرکاری خزانوں اور دوسرے سرکاری مقامات پر حملوں کامنصوبہ بنایا۔ اپنے اصل مقصد سے حکومت کی توجہ ہٹانے کے لیے [[گوالیار]] کے ایک گاؤں پر حملے کی قیادت کی۔ ایک پولیس مخبر نے ان کا راز فاش کر دیا۔ پوری پارٹی کو گھیر لیا گیا اور اس کے 35 ممبر پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ باقی کو پکڑ لیا گیا جن میں گیندا لال بھی شامل تھے اور گوالیار، [قلعہ آگرہ]] اور مین پوری کی جیلوں میں قید رہے۔ ان کی قائم کردہ ماتری دیدی انقلابی جماعت کے ممبروں نے ان کے چھڑانے کے لیے ایک ناکام کوشش کی۔ جیل میں وحشیانہ تشدد کے سبب سخت بیمار پڑ گئے اور بعد میں [[تپ دق]] ککا شکار ہو گئے۔ پولیس حکام کو ان کا مخبر بن جانے کی پیش کش کر کے دھوکا دیا اور جرات مندانہ طور پر بچ نکلنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ کیہ مہینوں تک روپوش وہے۔ ان کے خاندان کے افراد کو پولیس نے دہشت زدہ کر کے تکلیفیں پہنچائیں مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔ خفیہ طریقے سے [[دہلی]] پہنچے اور ایک پیاؤ پر پانی پلانے والے نوکر کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔<ref>شہیدانِ آزادی (جلد اول)، چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر پی این چوپڑہ، [[قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان]] نئی دہلی، 1998ء، ص 206</ref> ان کی بیوی اور چھوٹا بھائی جب دہلی جا کر ان سے ملے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ [[پیچش]] کے مرض میں شدت سے مبتلا ہیں۔ پولیس کے پہچان لینے کے خوف کی بنا پر طبی امداد نہ ملنے سے ان کی حالت نازک ہو گئی۔ دہلی کے ارون ہسپتال میں لے جائے گئے اور فرضٰ نام سے داخلہ لیا۔ ایک نامعلوم آدمی کی ھیثیت سے 21 دسمبر 1920ء کو انتقال کر گئے۔ ان کی لاوارث لاش پولیس لے گئے اور بعد میں انہیں شناخت کر لیا گیا۔<ref>شہیدانِ آزادی (جلد اول)، ص 207</ref>
 
== حوالہ جات ==