"سید علی عباس جلالپوری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
وفیات اور پیدائش کو زمرہ شامل کیا ہے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 63:
جلالپوری کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز (ADI) بھی رہے [[1945ء]] میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ جلالپوری نے دوران ملازمت [[1950ء]] میں [[اردو]] میں [[ایم اے]] کیا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوئے۔ یہاں ایک وسیع لائبریری دامن دل کشا کیے ان کو خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ [[فارسی زبان|فارسی]] میں پہلے ہی مہارت حاصل تھی چنانچہ [[ایم اے]] [[فارسی زبان|(فارسی)]] کرنے کا ارادہ کیا اور[[1954ء]] میں [[ایم اے]] [[فارسی زبان|(فارسی)]] میں قابل رشک کامیابی حاصل کی جس پر گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرائے گئے لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا، مشہور زمانہ فلسفی [[ول ڈیورانٹ]] کے ساتھ ان کی خط کتابت بھی رہی۔ اس کی تاریخ کی کتاب شائع ہوئی تو جلالپوری نے ان میں اغلاط کی نشان دہی کی، [[ول ڈیورانٹ]] ان نے ان اغلاط کا جائزہ لیا اور اقرار کیا کہ وہ اگلے ایڈیشن میں ان اغلاط کو درست کر دیں گے۔ اس خط کا عکس ” مکاتب علی عباس جلالپوری“ میں دیا گیا ہے۔ [[1958ء]] میں جلالپوری نے [[فلسفہ|فلسفے]] کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے ایک امتحانی پرچے کو ہندوستان کے پروفیسروں نے چیک کیا کیونکہ [[پاکستان]] میں اس کا کوئی استاد موجود نہ تھا۔ اب وہ [[ایم اے]] ([[فلسفہ]]) گولڈ میڈلسٹ تھے۔ [[میونخ]] یونیورسٹی [[جرمنی]] سے انہیں [[پی ایچ ڈی]] کے وظیفے کی دعوت آئی۔ شہزادی بیگم نے بھرپور انداز میں انہیں جانے کے لیے مجبور کیا مگر بیوہ ماں اور بیوہ بہن کے چار بچوں کی کفالت ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔ انہوں نے وطن میں رہ کر اپنا موقف پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ [[1956ء]] میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج فار بوائز سیٹلائٹ ٹاؤن [[گوجرانوالہ]] میں ہو گیا۔ اس ادارے کا ادبی مجلہ "مہک" انہوں نے اولین سطح پر جاری کیا۔ اپنے تصنیف کردہ ڈرامے سٹیج کروائے۔ "یادوں کے سائے" نامی ڈراما محفوظ رہ گیا ہے۔ منور سعید اور دلدار پرویز بھٹی ان کے طلبہ میں سے تھے۔
 
== تصنیفتحریری و تالیفرجحان ==
[[فائل:Ali abbas books.jpg|تصغیر|330px]]
تصنیف و تالیف کا رجحان ان کے ذوق مطالعہ کا مرہون منت تھا۔ دسویں جماعت میں پہلا افسانہ”ہمایوں“ میں چھپا جسے ادبی مجلے کا اعزازحاصل تھا۔
[[1936ء]] میں جب وہ گورنمنٹ کالج سے [[بی اے]] کرچکے تو ان کے افسانے اور مضامین ” ہمایوں“ میں چھپنے لگے، بطور [[طالب علم]] کچھ عرصے کے لیے شعرو شاعری کا شوق بھی چرایا لیکن ان کے استاد [[پطرس بخاری]] نے انہیں عملی کام کرنے کی تلقین کی غالباً اسی لیے ان کے افسانے اور شاعری سنبھالے نہ جاسکے۔ ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین نے انہیں علمی کام کرنے کا مشورہ دیا۔[[ترقی پسند تحریک]] کے بانی [[سجاد ظہیر]]، [[رشیدہ جہاں]]، [[ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر|ڈاکٹر تاثیر]]، [[فیض احمد فیض]] جیسی شخصیات افتخار الدین کے گھر اکٹھی ہوتیں تو جلالپوری بھی ان کی محفلوں میں شرکت کرتے۔ سب کی فرمائش پر انہوں نے مارکسزم پر اپنا ہمدردانہ مقالہ بھی پڑھا۔ تحقیق اور مسلسل اقتباس لکھنے اور تصنیف و تالیف کرنے کا کام زندگی مانگتا ہے جس کی وجہ سے جلالپوری کی زندگی میں مجلس کے تکلفات ختم ہوتے چلے گئے۔ ان کے اقتباسات پر مبنی 60 نوٹ بکس موجود ہیں جو سینکڑوں کتابوں کا نچوڑہیں۔ ان نوٹس بکس کے تقریباً 15000 صفحات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لیونارڈو ڈاونچی کے نوٹس ” تحریری و تصویری صفحات“ بھی اتنے ہی ہیں۔
ان کی معروف تصانیف یہ ہیں
# روح عصر،
#روایات فلسفہ،
#مقامات وارث شاہ،
#عام فکری مغالطے،
#وحدت الوجودتے
#پنجابی شاعری،
#تاریخ کا نیا موڑ،
#کائنات اور انسان،
#روایات تمدن قدیم،
#خردنامہ جلال پوری،
#مقالات جلال پوری،
#جنسیاتی مطالعے،
#رسوم اقوام
#اقبال کا علم کلام
 
== اقبال کے بارے میں ==