"مراقبہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← جس، \1۔\2؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 5:
== اصطلاحی معنی ==
سلوک کی اصطلاح میں حضور دوست میں گردن ڈال دینا ہے(محبوب ،معشوق ،مطلوب کے سامنے جھک جانا اس میں منہمک ہو جانادوست کو آنکھوں میں رکھنا <ref name="ReferenceA">یازدہ رسائل خواجہ بندہ نواز گیسو دراز صفحہ 215 سیرت فاؤنڈیشن لاہور</ref>۔
== مراقبہ ==
جس کی انگریزی عام طور پر meditation کی جاتی ہے اور اگر اسی متبادل کو ہم پلہ برائے لفظ{{زیر}} مروجہ [[عربی زبان|عربی]]، [[فارسی]] اور [[اردو]] تسلیم کر لیا جائے تو پھر مراقبہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ؛ مراقبہ ایک ایسی [[عقل|عقلی]]ی [[تادیب]] (discipline) کا نام ہے کہ جس میں کوئی شخصیت ماحول کے روابطِ حیات سے ماوراء ہو کر افکارِ عمیق کی حالت میں چلی جائے اور اندیشہ ہائے دوئی سے الگ ہوکر سکون و [[آگاہی|فہم (awareness)]] کی جستجو کرے۔ یعنی یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فکرِ آلودہ سے دور ہوکر فکرِ خالص کا حصول مراقبہ کہلاتا ہے۔ meditation کو [[تاریخ اسلام]] کے پس منظر میں دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غارِ حِرا میں عبادت اور غور و فکر مراقبہ meditation کے زمرے میں کیا جا سکتا ہے۔ عبادت میں خشوع و خضوع ہی اصل میں درست طور پر وہ طریقۂ کار ہے کہ جس کی اسلام میں وضاحت ملتی ہے۔ مراقبہ سے عبادت میں توجہ ،خشوع و خضوع اور یکسوئی پیدا کی جاتی ہے [[سلسلہ چشتیہ]] اور [[سلسلہ نقشبندیہ]] سیفیہ میں 36 مراقبات سبق کے طور موجود ہیں<ref name="ReferenceA"/>۔ == اوراد نقشبندیہاحمد الدین توگیروی صفحہ 17 طبع ادارہ سیفیہ باغبانپورہ لاہور ==
{{حوالہ جات}}
== اصل الکلمہ ==
مراقبہ، عربی لفظ رقب کی [[اشتقاقیات|اصل الکلمہ]] سے مشتق لفظ ہے جس کے معنی بنیادی طور پر دیکھنے، توجہ دینے وغیرہ کے آتے ہیں اور اسی سے اردو میں راقب اور رقیب کے الفاظ بھی ماخوذ کیے جاتے ہیں۔<ref>ایک موقع [[آن لائن]] پر [http://www.urbandictionary.com/define.php?term=Muraqba لفظ مراقبہ کی اصل الکلمہ]</ref> مراقبہ کا لفظ اس اصل الکلمہ کے اعتبار سے اپنے ذہن کی گہرائیوں میں دیکھنے یا اپنی عقل کو دیکھنے کے قابل بنانے کے تصور میں لیا جا سکتاہے۔
== وضاحت ==
مراقبہ انسان کا اپنی [[خود (ضد ابہام)|خودی]] ([[خود (ضد ابہام)|self]]) یا ذات میں گہرائی کی طرف ایک سفر ہے جس سے انسان اپنے اندر ([[باطنیت|باطن]]) میں اپنا [[آگاہی|اصلی گھر (awareness of self)]] یا فکر و سوچ کا ایک خاص مقام تلاش کر سکتا ہے۔ مراقبہ چونکہ [[دماغ|ذہن]] کی ایک [[نفسیات|نفسیاتی]]ی کیفیت ہے اور اس کا انسانی [[شعور|شعور (consciousness)]] سے گہرا اور براہ راست تعلق ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق اور تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ ہونے کی مراقبہ میں کوئی قید نہیں ہے گویا مراقبہ سب کے لیے ایک جیسا فکری عمل ہے۔ مراقبہ، مراقب (شخصیت) کی توجہ اس کے باطن (ماحول کے اثرات سے دور یکسوئی) کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے اور اس طرح یکسوئی سے کی جانے والی فکر کے دوران انسان کی توجہ چونکہ مختلف خیالات میں بکھرے اور بھٹکے ہوئے شعور (conscious) سے الگ ہوکر کسی ایک بات پر یکسوئی سے مرتکز ہو جاتی ہے لہ{{ا}}ذا ذہنی و نفسیاتی طور پر انسان ایک قسم کی حالت{{زیر}} سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مراقبے سے انسان کی توجہ؛ مختلف خیالات میں منتشر شعور (مجازی مراکز) کی بجائے کسی ایک فکر پر مرتکز شعور (حقیقی مرکز) سے مربوط ہو جاتی ہے۔ اگر تمام دنیاوی خیالات سے الگ ہوکر محض عبادت پر توجہ کی جائے تو عبادت میں خشوع و خضوع حاصل ہوتا ہے جس سے انسان مادی تصورات سے جدا ہوکر دینی علم میں اضافہ کر سکتا ہے اور کم از کم اسلام میں اسے خاص طور پر مراقبہ کے نام سے تعبیر نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ دنیاوی خیالات سے دور رہ کر خود کو [[اللہ]] کے سپرد (عبادت میں مشغول) کر دینے کی کیفیت ہے، عبادت میں طاری اس ذہنی کیفیت کو لغتی معنوں مراقبہ ہی کہیں گے لیکن اسلام میں مراقبہ (اپنے رائج تصور میں) نا تو عبادت کا حصہ ہے اور نا ہی عبادت کے لیے لازم ہے۔ اس کے برعکس ایسے مذاہب بھی ہیں کہ جن میں مراقبہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، جیسے [[بدھ مت]] اور [[ہندو مت]] وغیرہ۔۔ حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور (imagination) کے ساتھ منسلک ہے اور اس تصور سے مراد مراقبے کی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر شعور میں بیدار افکار سے ہوتی ہے۔ مراقبہ نفسیاتی علم کی وہ قسم ہے جو انسان کی شخصیت، [[روح]] اور [[خود (ضد ابہام)|ذات]] کو آپس میں یکجا کر دے اور ان سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے۔ مراقبہ، ظاہری زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے اور زندگی کی حقیقت کو قریب سے سمجھنے اور اس کی ظاہری نا پائیداری کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ مراقبہ کو ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں، جتنا زیادہ اس عمل (مشق / ریاض) کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی۔
 
== مراقبہ کا عمل اور تاریخ انسانی''' ==
سطر 17:
اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگو ں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے ۔؟زمین پر زندگی کا آغاز کسیے ہوا ۔؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیو ں مر جاتے ہیں۔؟آیا ان سب معا ملات کے پس پردہ کو ئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے۔ ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلو کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) ا کثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے۔ لہذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے۔ لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلق سے متعلق تخلیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کے لیے مختلف روش اختیار کی گئیں۔
 
لوگو ں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کے لیے اسکالرشپ مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قد رت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری،الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا۔ ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زیستی (Biological) قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تجقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔ یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے .ہے۔
 
علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق میں تلاش کیا جائے خود انہوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ ا گراس ظاہری کائنات کا کو ئی خا لق ہے تو ان کے وجود (جسم )کا بھی کوئی خالق ہو گا؟ لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے۔ اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی مذاہب کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND (پہ کیے گئے نہ کہ جسم پہ)
پرانے وقتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے مل کر بنی ہے۔ زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات108عناصر سے ملکر بنی تھی۔ پھر ان 108عناصرکی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM)سے ملکر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔ اس کے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی [[بنیادی ذرہ]] نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔ یہ معاملہ سائنسدانوں کے لیے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں۔ لہذا ایک نئی اختر ع سا منے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھہرا ئے جو لہر کے ذرات ا ور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الیکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle)ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹاین کی مساوات E= MC2 بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔ سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہو ئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے۔ جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
 
سطر 36:
ع کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے
 
یہی زندگی کا موسم بہار ہے جس کے آ جانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جس کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہیں اور آنے والے کل کی خوشیوں کا دور دورہ ہے۔ یہاں لذت و سرور کا وہ سماں ہے جو دنیا کے کسی نشے میں نہیں۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کی بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔ اب اس کا سفر کوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں جس کے سفینے صرف کامیابی ،خشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔
 
== نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) اور مراقبہ''' ==
درحقیقت آپ صرف ایک احساس خودی (Self) ہیں۔ اور یہ حس آگاہی ہے نہ کے آپکا ذہن، جسم یا پھر خیالات بلکہ اس مکمل شعوریت (خودآگاہی) ہیں جو محسوس کرتی ہے۔ اور شاہد بنی ہوئی ہیں کہ آپ زندگی میں کیا رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والا ،از سرنو زندگی بخشنے والا ہے۔ مراقبہ ایک خودی (Self )کو اپنے اندر جاننے کا عمل ہے۔ اس موقع پہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد یہ کس طرح جان سکتا ہے کہ اس کے اندر خودی (Self ) موجود ہے جوان تمام واقعات و حالات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو ہمارا ذہن یا جسم اس زندگی میں کر رہا ہے۔
یہ بات یہاں تک واضح ہو گئی کہ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے۔ جو ہمیں اپنے اندر موجود خودی (Self) سے ملانے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والی اور از سرنو زندگی بخشنے والی ہے۔ لہٰذا ہم چاہے ںگئے کہ مراقبہ کو سمجھنے کے لیے ہم سب سے پہلے اپنے اندر موجود خودی (Self) کو جانیں۔ آپ اس خودی کو اور بھی نام دے سکتے ہیں۔ مثلاً، نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) وغیرہ آئیے اب ایک چھوٹا سا تجربہ کرتے ہیں جو انتہائی دلچسپی کا حامل ہے اور آپ کے لیے اس (میں ) سے شناسا ئی کا ذریعہ بنے گا۔
 
سطر 59:
{{موضوعات مذاہب}}
 
[[زمرہ:مراقبہ| ]]
[[زمرہ:تدخلات عقل و جسم]]
[[زمرہ:خود]]