"بسماچی تحریک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← کارروائی؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 11:
== بسماچی تحریک کا پہلا مرحلہ، 1918ء تا 1920ء ==
[[فائل:Prokudin-Gorskii-19.jpg|تصغیر|محمد علیم خان، آخری امیر بخارا، یہ تصویر پروکودین گورسکی نے 1911ء میں لی]]
زار کے خلاف [[انقلاب اکتوبر]] میں [[فیض اللہ خوجایوف]] جیسے رہنماؤں نے اشتراکی حلقوں کا ساتھ دیا اور [[بخارا]] اور [[خوارزم]] (خیوہ) کے حصول میں سرخ افواج کی مدد کی جبکہ سابق امیر بخارا [[محمد علیم خان]] جیسے رہنماؤں نے بسماچی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ امیر کے دو جرنیلوں نے 30 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکر تیار کیا۔ [[1920ء]] کے موسم گرما تک بسماچیوں نے [[وادئ فرغانہ|وادی فرغانہ]] میں کافی مقبولیت حاصل کی اور بعد ازاں [[ترکستان]] بھر میں پھیل گئے۔ اُس وقت بیشتر ترکستان اشتراکیوں کے مکمل قبضے میں نہیں تھا بلکہ مقامی حکومتوں، جیسے خوارزم و بخارا کی اشتراکی روسی ریاستیں، کے زیر انتظام تھا لیکن یہ حکومتیں مکمل طور پر اشتراکیوں کی پٹھو تھیں اور انہی کے اشاروں پر ناچتی تھیں۔
بالشیوک مخالف [[سفید افواج]] کے مقابلے میں بسماچیوں کو کسی طرح کی بیرونی امداد بھی حاصل نہ تھی، اس کے باوجود [[1920ء]] کے اوائل تک بسماچی وسط ایشیا کے بڑے حصے میں پھیل گئے تھے اور سوویت حکومت کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ اب وہ ترکستان سے محروم ہو جائے گی۔ [[ولادیمیر لینن|لینن]] حکومت نے ترکستانی باشندوں کے اعتراضات کے خاتمے کے لیے ان سے مصالحت کا منصوبہ بنایا جس میں غذائی اجناس کی فراہمی، محصولات میں نرمی، زرعی اصلاحات کے وعدے، اسلام مخالف پالیسیوں کے خاتمے اور زراعت پر حکومتی ضابطے کے خاتمے کے وعدے شامل تھے۔ ان اقدامات نے عوام میں بسماچی تحریک کی کشش کو کم کر دیا اور [[سرخ افواج]] کے لیے بسماچیوں کو زیر کرنا ممکن بنا دیا۔ گویا یہ عوامی غیظ و غضب کو کم کرنے کے لیے کھیلا گیا ایک کھیل تھا، جس میں وعدوں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کی گئی اور در پردہ اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے پوری قوت کا استعمال کیا گیا۔
 
سطر 22:
اس مرتبہ پھر سوویت انتظامیہ نے اپنی پرانی دو طرفہ پالیسی سے کام لیا جس میں ایک جانب سیاسی و اقتصادی مفاہمت کے جھانسے دیے گئے اور پیٹھ پیچھے مسلم دہقانوں پر مشتمل ایک رضاکار فوج تشکیل دی گئی جو [[سرخ چھڑیاں]] (Red Sticks) کہلاتی تھی اور باضابطہ افواج میں مسلمان فوجیوں کو شامل کر کے انہیں بسماچیوں کے خلاف لڑایا۔ یہ سوویت حکمت عملی ایک مرتبہ پھر کامیاب رہی اور جب [[مئی]] [[1922ء]] میں انور پاشا نے امن پیشکش ٹھکرا دی اور 15 روز میں ترکستان سے روسی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کر دیا تو [[ماسکو]] مقابلہ کرنے کے لیے بھرپورانداز میں تیار تھا۔ [[جون]] [[1922ء]] میں سوویت افواج نے [[جنگ کفرون]] میں بسماچی جنگجوؤں کو شکست دی جہاں انور پاشا نے پہلی بڑی شکست کھائی۔ سرخ افواج نے مشرق کی جانب مزید پیش قدمی کرتے ہوئے بسماچیوں کے زیر قبضہ کئی قصبہ جات اور دیہات واپس لے لیے۔ انور پاشا [[4 اگست]] [[1922ء]] کو موجودہ [[تاجکستان]] میں سوویت افواج کے خلاف حتمی کارروائی کی تیاریوں کے دوران شہید کر دیے گئے۔
 
انور پاشا کے بعد بسماچیوں کی قیادت سنبھالنے والے [[سلیم پاشا]] نے جدوجہد جاری رکھی لیکن بالآخر [[1923ء]] میں انہیں [[افغانستان]] فرار ہونا پڑا۔
اہم قائدین کے مارے جانے کے بعد بسماچی تحریک نے خفیہ انداز میں کام کرنے کی ٹھانی اور پہاڑوں میں خفیہ ٹھکانوں کے ذریعے کاروائیوںکارروائیوں کا آغاز کیا۔ لیکن ان کاروائیوںکارروائیوں کے نتیجے میں وہ عوامی حمایت سے محروم ہو گئے کیونکہ عوام اغوا اور دہشت گردانہ کاروائیوںکارروائیوں کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھتے۔ [[1926ء]] تک بسماچی بغاوت حقیقتاً اپنے انجام کو پہنچ گئی تاہم اکا دکا واقعات [[1931ء]] تک پیش آئے جب سوویت افواج نے بسماچی رہنما [[ابراہیم بیگ]] کو گرفتار کر لیا۔ [[1934ء]] میں بسماچیوں کے آخری گڑھ کو موجودہ [[کرغیزستان|کرغزستان]] میں ختم کر دیا گیا۔
سوویت ذرائع کے مطابق اس بغاوت میں 1441 روسی فوجی ہلاک ہوئے۔
== فلمیں ==
بسماچی بغاوت کے موضوع پر مختلف فلمیں بھی بنائی گئی ہیں جن میں White Sun of the Desert, The Seventh Bullet اور The Bodyguard شامل ہیں۔