"ژاک دریدا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
رد تشکیل
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 5:
فلسفہ چونکہ متن ہی نہیں سارے آفاق کو صداقت اور معنی سے خالی قرار دیتا ہے۔ اس لیے لفظ قدر بھی اس کے لیے ایک جز و زائد کا حکم کا درجہ اختیار کر جاتا ہے۔ ان کے خیال میں متن کے معنی قاری کے نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کے درمیان میں بین العمل پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور متن کے لفظوں میں آئیڈیالوجی کا رنگ چڑھا ہوتا ہے۔ دریدا کا "رد تشکیلیت" کا نظریہ خاصا پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے لہذا اس کی حتمی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک مبہم فلسفیانہ اصطلاح ہے۔ یہ جزوی طور پر نئی تشریحات کے ذریعے پرانے متں نئی زندگی تلاش کی جاتی ہے اور نئے تناظر میں متنوں کے پوشیدہ رموز کی نئے معنی، نئی تشریحات اور تفہیمات تلاش کی جاتی ہے۔ وہ معنی، پس معنی اور معنی در معنی کو الٹا کر رد معنی میں تبدیل کردیتا ہے۔ دریدا کا خیال ہے کہ کلام اور گفتار کے جڑیں تشکیک اور اعتباطی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے۔ متن کے متعین معنی نہیں ہوتے۔ کیونکہ کئی موضوعی عناصر متن کی معنویت تبدیل کردیتے ہیں۔
دریدا نے اکثر متن کی معنویت کو تباہ کرنے کے لیے جو کچھ لکھا وہ اس کی معنویت کو خود بھی نہیں سمجھ پائے۔ دریدا کی ردتشکیلیت کا نظریہ ادب اور متن اور ادبی تنقید میں کا نظریہ رد بھی کیا گیا اور اس کی توسیع بھی ہوئی۔ اب "پس ردتشکیل" کا تازہ نظریہ موضوع بحث ہے۔
 
<nowiki>:::</nowiki> ردتشکیل کا نظریہ، ژاک دریدا اور ان کا اصل چہرہ " :::
<nowiki>***</nowiki> احمد سہیل ***
ژاک دریدا/ Jacques Derrida { 15 جولائی 1930 - 9 اکتوبر 2004} نے ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں اپنے "رد تشّکیل" نظرئیے، فلسفے، ادبی اور لسانی انتقادات میں اپنے " فطین" اور شر انگیز افکار کو پیش کیا۔ جس میں کلیدی نکتہ مغربی ثقافت کی در تشّکیل " ہے۔جو یورپ کی قومی شناخت کا بحران بھی ہے ، ساتھ ہی انھوں نے عبرانی الہیات اور اسطوریہ کے میدان میں نیا خون بھرا اور اپنے نے خیالات اور تصورات کے دروازے کھولے۔ جس کے پس منظر میں امریکہ کی جامعات اور " تھینک ٹینک "میں سرگرم کٹر مسیحی اور یہودی زہن کام کررہا تھا۔ جس میں مڈریس {MIDRASH} تصورات کی رنگا رنگی تھی وہ دبے پاوں ادبی تنقید اور فکریات میں داخل کردی گئی۔ اور اسے سیکولر نظریات کا جھانسہ دے کر عبرانی فکریات اور مناجیات کو امریکی تعلیم اداروں کے نصابیات میں شامل کروادیا تھا۔ جس میں امریکی " اتقادی"{ پیورٹن} اور "واسپ" {WASP} فلسفہ کی روایت سے بیزاری اور نفرت چھپی ہوئی تھی۔ اسی سبب امریکہ میں سیکولر اور روشن خیال اور کچھ مسیحی دانشوروں نے ژاک دریدا کی یہودیت میں لتھٹری ہوئی ردتشّکیل پر برہمی کا اظہار کیا اور اسے مسترد کردیا ۔ جبکہ الجزائر میں پیدا ہونے والی ایک یہودی فلسفی خاتون ہیلن سیکسن نے ژاک دریداکے فلسفیانہ نظام کا دفاع کرتے ہوئے ایک کتاب " پوٹریٹ آف ژاک دریدا : بحیثت ایک ولی" لکھی ۔ اس کے علاوہ ویوسکوگرا، ایلیٹ ولسن اور ڈینیل بوئرین نے یہودی متن میں یہودی الہیات اور ثقافت کے نئے مسائل پر متنازعہ مباحث شروع کی اور ردتشّکیل کے نظرئیے میں الجھاو بھی پیدا کئے اور اس کے ساتھ ہی دریدا کمال ہوشیاری سے کچھ سنجیدہ سوالات ہی نہیں اٹھائے بلکہ تاریخ کے حوالے سے نظریات میں اپنے زہنی اور فکری تناظر میں مزید پیچیدگیان کھڑی کردی۔ ار اپنے نظریات کو مشکوک بھی بنا دیا۔ "ردتشّکیل" کے پس منظر اور اس کی اندر کی سازشی حرکیات جو امریکی اسٹبلشمنٹ کے سازشی رویوّں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ فضیل جعفری نے اپنے ایک مضمون "امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت" میں اس کر کٹھا چھٹا بیاں کیا کے۔ وہ لکھتے ہیں" اس کی { ردتشکیّل کی} پیدائش کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی؟ اس سلسلے میں عرض خدمت یہ ہے کہ تھیوری کا جنم ۱۹۶۶ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ہوا۔ یوں تو اس کے بیج دریدا، بارتھ اور لاکاں جیسے دائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی دانشوروں نے ڈالے، دایہ گیری کے فرائض جے۔ہلس ملر ، پال دی مان اور کلر نے انجام دیے لیکن اس کے اصلی پدربزرگوار ہیں، امریکہ کے نامی گرامی سرمایہ دار اور صنعت کار ہنری فورڈ دوئم۔آخر یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ۱۹۵۴ میں شروع ہونے والی ویت نام جنگ ۶۵۔۱۹۶۴ تک ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ امریکی پروفیسر اور طلبہ یونیورسٹیوں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے تھے۔ حکومت کے انسان کش رویے کے خلاف دھواں دھار تقریریں کی جارہی تھیں اور نعرے لگائے جار ہے تھے۔ چونکہ امریکہ میں سو فی صد خواندگی کے علاوہ عوامی ترسیل و ابلاغ کے ذرائع بھی بہت عام ہیں ، اس لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج ملک کے کونے کونے میں پہنچنے لگی تھی۔ان حالات میں امریکی حکومت کا فکر و تشویش میں مبتلا ہوجانا ایک فطری امر تھا۔ اسی نازک موڑ پر انتظامیہ نے ہنری فورڈ دوئم سے مدد طلب کی۔ فلنڈرس یونیورسٹی (آسٹریلیا) کے پروفیسر جان ہارورڈ (John Harwood) نے اپنی کتاب Eliot to Derrida: The poverty of Interpretation (1989) میں تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کی ایما پر ہنری فورڈ دوئم نے ۱۹۶۵ کے آخر میں اپنے سازشی رفقا ئے کار (Co-conspirators) کی ایک میٹنگ طلب کی۔ واضح رہے کہ اس وقت تک رولاں بارتھ اور ژاک دریدا وغیرہ کی سارتر دشمنی اور سارتر کے حوالے سے کمیونسٹ دشمنی کے چرچے عام ہوچلے تھے۔ دریدا، سارتر کے بارے میں اپنا یہ مشہور جملہ لکھ چکا تھا:میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے مسائل پر بالکل غلط رائے رکھنے کے باوجود سارتر کو اتنی شہرت کیسے مل گئی اور اسے اپنے عہد کا دانشورانہ ضمیر کیسے کہہ دیا گیا... (فلپ نورس کی کتاب: دریدا، ۱۹۸۷، ص۲۱)چنانچہ ۱۹۶۵ والی اس میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ فرانسیسی دانشوروں کے اس گروہ کو امریکہ مدعو کیا جائے تاکہ یہ لوگ ایسے مباحث اٹھائیں کہ ریڈیکل امریکی پروفیسر اور طلبہ ان میں الجھ کر رہ جائیں اور پھر دسیوں برس تک سڑکوں پر نہ آ سکیں۔ نتیجے کے طور پر جے۔ہلس ملر اور پال دی مان نے بحکم حاکم (فورڈ دوئم) اکتوبر ۱۹۶۶ میں The Language of Criticism and the Science of Man کے موضوع پر وہ سمینار منعقد کیا جس میں رولاں بارتھ اور لاکاں کے علاوہ ژاک دریدا بھی موجود تھا۔ اس سمینار کے سارے مصارف ہنری فورڈ دوئم نے ہی برداشت کیے.
 
== حوالہ جات ==