"شینا زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 24:
}}
 
'''شینا زبان''' ایک ہند آریائی داردی زُبان ہے جو ہند آریائی لسانی گروہ کی شمال مشرقی ذیلی لسانی گروہ کی داردی لسانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ داردی لسانی گروہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ اپنے مرکز (وسط ایشیاء) سے اُس وقت علیحدہ ہوا یا برصغیر کی طرف ہجرت کی جب ویدی اور اوستا بولنے والے ابھی کوئی مشترکہ زبان بول رہے تھے اور انہوں نے برصغیر کی طرف نقل مکانی شروع نہیں کی تھی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ شینا زبان اور دوسری داردی زبانوں والوں نے دو سے اڑھائی ہزار سال قبل مسیح کے دوران مختلف گروہوں میں وسط ایشیاء سے برصغیر کی طرف ہجرت شروع کی۔
'''شینازبان''' ایک قدیم [[زبان]] ہے۔ [[وادیٔ سندھ]] سے آریائی تہذیب کے ایک قبیلہ [[’’درد‘‘]] اپنے ساتھ اس زبان کو لے کر وادیٔ سندھ سے ہجرت کرکے شمالی مشرق کی طرف کوچ کرگیا۔ زمانے کے ہاتھوں دھکے کھاتے کھاتے اوربھٹکتے بھٹکتے یہ قبیلہ آخرکار [[دردستان]] (شمالی علاقہ جات) میں پھیل گیا۔ دورانِ سفر اس کا بہت سارے لوگوں سے ملنا جلنا ہوا ہوگا اور آہستہ آہستہ کچھ لوگ تو نئے لوگوں میں ہی گھل مل گئے ہوں گے اور جو بچے کھچے شمالی [[علاقہ جات]] میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے وہاں پر نئے سرے سے زندگی شروع کی۔ اس دوران انہیں اپنی زبان کوتحریری طور محفوظ رکھنے کا خاص خیال نہیں رہا اور یہ زبان سے بولی بن کر رہ گئی۔ حالانکہ یہ زبان کافی اہم اور مشہور زبان ہے۔ اس میں سنسکرت اور فارسی کے اکثر الفاظ موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس زبان میں [[سنسکرت]] کا اثر زیادہ رہا ہوگا۔ چونکہ قدیم زمانے میں سنسکرت ہی زیادہ مشہورزبان رہی ہے اور اس کے بعد فارسی کا دور دورہ شروع ہوا۔ شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی رائج ہے  ۔ یہ قوم سندھ سے ہجرت کے بعد [[دریائے سندھ]] کے بالائی حصوں ،اس کے معاون دریائوں کے کناروں ،[[کشن گنگا]] ،[[دراس]]، [[استور،]] [[گلگت]]، ہنزا، نگر میں آباد ہوئے۔ شینا کا تمام علاقہ بشمول گلگت ،ہنزا، نگر، دریل ،استور، اسکردو وغیرہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ کشن گنگا، دراس، [[تلیل]] ،[[گریز]] اور [[لداخ]] کے بروکشت قبیلے ہندوستان کے زیر انتظام ہیں۔ ڈاکٹر بدرس کے مطابق ڈوماکی (سازندوں کی زبان)کی تکمیل وتشکیل میں بھی ایک ایسی ہی زبان استعمال ہوئی ہے جو اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ ان کے بقول شینا اور بروشکی دونوں میں اس معدوم زبان کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر گریرسن [[پساچ]] کی زبان کو درد اقوام کے آبا واجداد کی زبان قرار دیتاہے۔ ڈاکٹر بدرس کے بقول شینا زبان کے ذخیرہ الفاظ کا ستّرفیصد سنسکرت سے ماخوذ ہے ۔
شینا زُبان کم و پیش پانچ ہزار ق م (امین ضیاء، شینا گرائمر، 1986) کی ایک قدیم داردی زبان سمجھی جاتی ہے۔ شینا اور داردی زبانوں میں وہ صرفی، نحوی اور فونیائی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو پاکستان کی زیادہ تر موجودہ دوسری زبانوں میں ناپید ہو چکی ہیں۔ داردی زبانوں میں فعلی صرفیے افعال میں جُڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ شینا زبان کو ایک تانی زبان بھی کہا جاتا ہے جس کے سُر اور تان کے مدوجزر سے الفاظ میں معنوی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔
شینا زُبان کے ماہر جناب شکیل احمد شکیل کا کہنا ہے کہ ”شینا زُبان پروٹو کلاسک آریائی زبان ہے جس کی ابتدا وسط ایشیا میں کاکیشیا کے میدانوں اور وادیوں میں ہوئی اور یہ زبان پانچ ہزار سال قدیم ہے“۔
ڈاکٹر گریرسن [[پساچ]] کی زبان کو درد اقوام کے آبا واجداد کی زبان قرار دیتاہے۔ ڈاکٹر بدرس کے بقول شینا زبان کے ذخیرہ الفاظ کا ستّرفیصد سنسکرت سے ماخوذ ہے ۔
 
کس قدر بیدار اور ذہین تھے وہ لوگ جنہوں نے دو اڑھائی ہزارسال پہلے اپنی زبان کو حروف کالباس پہنایا کہ  ان زبانوں نے ارتقائی منزلیں طے کیں اورر فتہ رفتہ یہ اقوام صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں لیکن اپنے آثار اورنقوش ،طرز معاشرت اور عقائدکے بارے میں چھوڑے گئے ان آثارکے ذریعہ دنیا کو اُن کے بارے میں علم ہوا۔ آج وہ قومیں جن کا کوئی فرددنیا میں موجود نہیں اور وہ زبانیں جنہیں بولنے والا کوئی شخص بقیدِ حیات نہیں،اُن کی وسیع وعریض سلطنتیں اور حکومتیں فنا ہوئیں لیکن یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے فناہوتے ہوتے اپنی زبان اور اپنے فکر وفن کو نوشتوں کی وساطت سے ایک بے حد ترقی یافتہ مستقبل تک پہنچایا اور آنے والی نسلوں کو مطلع کیا اورثابت کر دیا کہ ماضی کبھی مرتا نہیں۔ اگر وہ بھی بس کھانے پینے، سونے جاگنے، دولت سمیٹنے کو ہی زندگی کا مقصد وغایت گردانتے اور علوم وفن کی طرف متوجہ نہ ہوتے تو ان کا دوربھی کئی دیگر ہم عصر تہذیبوں اور قوموں کی طرح فنا اور بے نام ونشان ہوتا۔ قومیں مٹتی ہیں مگر آنے والی نسلوں کے فکر وفن ،معاشرے اور سوچ میں اثر انداز ہوجاتی ہیں۔ ان کے زبان وادب کی باقیات نئی زبانوں میں مدغم ہو کرایک نیا روپ دھارلیتی ہیں ۔