"شینا زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←شینا حروف تہجی: درستی (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
||
سطر 24:
}}
'''شینا زبان''' ایک ہند آریائی داردی زُبان ہے جو ہند آریائی لسانی گروہ کی شمال مشرقی ذیلی لسانی گروہ کی داردی لسانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ داردی لسانی گروہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ اپنے مرکز (وسط ایشیاء) سے اُس وقت علیحدہ ہوا یا برصغیر کی طرف ہجرت کی جب ویدی اور اوستا بولنے والے ابھی کوئی مشترکہ زبان بول رہے تھے اور انہوں نے برصغیر کی طرف نقل مکانی شروع نہیں کی تھی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ شینا زبان اور دوسری داردی زبانوں والوں نے دو سے اڑھائی ہزار سال قبل مسیح کے دوران مختلف گروہوں میں وسط ایشیاء سے برصغیر کی طرف ہجرت شروع کی۔
شینا زُبان کم و پیش پانچ ہزار ق م (امین ضیاء، شینا گرائمر، 1986) کی ایک قدیم داردی زبان سمجھی جاتی ہے۔ شینا اور داردی زبانوں میں وہ صرفی، نحوی اور فونیائی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو پاکستان کی زیادہ تر موجودہ دوسری زبانوں میں ناپید ہو چکی ہیں۔ داردی زبانوں میں فعلی صرفیے افعال میں جُڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ شینا زبان کو ایک تانی زبان بھی کہا جاتا ہے جس کے سُر اور تان کے مدوجزر سے الفاظ میں معنوی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔
شینا زُبان کے ماہر جناب شکیل احمد شکیل کا کہنا ہے کہ ”شینا زُبان پروٹو کلاسک آریائی زبان ہے جس کی ابتدا وسط ایشیا میں کاکیشیا کے میدانوں اور وادیوں میں ہوئی اور یہ زبان پانچ ہزار سال قدیم ہے“۔
ڈاکٹر گریرسن [[پساچ]] کی زبان کو درد اقوام کے آبا واجداد کی زبان قرار دیتاہے۔ ڈاکٹر بدرس کے بقول شینا زبان کے ذخیرہ الفاظ کا ستّرفیصد سنسکرت سے ماخوذ ہے ۔
کس قدر بیدار اور ذہین تھے وہ لوگ جنہوں نے دو اڑھائی ہزارسال پہلے اپنی زبان کو حروف کالباس پہنایا کہ ان زبانوں نے ارتقائی منزلیں طے کیں اورر فتہ رفتہ یہ اقوام صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں لیکن اپنے آثار اورنقوش ،طرز معاشرت اور عقائدکے بارے میں چھوڑے گئے ان آثارکے ذریعہ دنیا کو اُن کے بارے میں علم ہوا۔ آج وہ قومیں جن کا کوئی فرددنیا میں موجود نہیں اور وہ زبانیں جنہیں بولنے والا کوئی شخص بقیدِ حیات نہیں،اُن کی وسیع وعریض سلطنتیں اور حکومتیں فنا ہوئیں لیکن یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے فناہوتے ہوتے اپنی زبان اور اپنے فکر وفن کو نوشتوں کی وساطت سے ایک بے حد ترقی یافتہ مستقبل تک پہنچایا اور آنے والی نسلوں کو مطلع کیا اورثابت کر دیا کہ ماضی کبھی مرتا نہیں۔ اگر وہ بھی بس کھانے پینے، سونے جاگنے، دولت سمیٹنے کو ہی زندگی کا مقصد وغایت گردانتے اور علوم وفن کی طرف متوجہ نہ ہوتے تو ان کا دوربھی کئی دیگر ہم عصر تہذیبوں اور قوموں کی طرح فنا اور بے نام ونشان ہوتا۔ قومیں مٹتی ہیں مگر آنے والی نسلوں کے فکر وفن ،معاشرے اور سوچ میں اثر انداز ہوجاتی ہیں۔ ان کے زبان وادب کی باقیات نئی زبانوں میں مدغم ہو کرایک نیا روپ دھارلیتی ہیں ۔
|