"شینا زبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 49:
شینا زبان کا موجودہ لسانی ماحول
شینا زبان کا موجودہ لسانی جغرافیہ اس کے قدیم لسانی جغرافیہ سے کئی گُنا زیادہ سُکڑا ہوا ہے۔ موجودہ دور میں شینا زبان سلسلہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکُش کے ایک وسیع لسانی جغرافیہ کے کئی مقامات پر بولی جاتی ہے جو جموں کشمیر میں گریز، دراس، بٹالک، لداخ، آزاد کشمیر کی نیلم وادی میں تاؤ بَٹ اور پُھلوائی، پاکستان میں پورے ضلع دیامر چلاس، نصف سے زائد گلگت کے حصّے، اسکردو کے بعض مقامات، ضلع غذر کے اکثر علاقے، ضلع اپر کوہستان کے نصف حصّے اور ضلع کولئی پالس کوہستان کے تمام ضلع میں بولی جاتی ہے۔ یہ موجودہ داردی زبانوں میں سب سے زیادہ بولنے والی زبان ہے۔ اس زبان کے کئی لہجے پائے جاتے ہیں ۔ اس کے بولنے والوں کی بعض بستیاں آج کل اپنے موجودہ جغرافیہ سے باہر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
شینا زبان کے موجودہ لسانی جغرافیہ میں بلتستان کی طرف اس کے ارد گرد بعض ہندآریائی، ایرانی، تبتو برمن (بلتی/لداخی)، گلگت اور غذر کے آس پاس بروشسکی، ڈُماخی، وخی، کھوار، ہندوستان کے زیر قبضہ علاقوں کی شینا گریزی، دراسی اور بٹالک، لداخی بروکھسٹ شینا کے اردگرد لداخی، تبتی، کشمیری، ہندی اور گوجری، انڈس کوہستان کے آس پاس داردی کوہستانی لسانی گروہ، ضلع شانگلا اور سوات کی طرف پشتو، ہزارہ ڈویژن کی طرف پشتو، ہنکو/تنولی اور گوجری، نیلم وادی میں شینا زبان کے ارد گرد پہاڑی، گوجری، کشمیری اور کُنڈل شاہی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شینا زبان کے وہ نئے میدانی یا شہری علاقے (پنجاب، خیبر پختونخواہ اور سندھ) جہاں 1930 کے بعد نئی بستیاں اور آبادیاں معرض وجود میں آئیں اور جہاں لاکھوں شینا بولنے والوں کی مستقل یا عارضی آبادیاں پائی جاتی ہیں ان کا کئی دوسری زبانوں سے لسانی رابطہ قائم ہے۔ ان میں ہندکو، گوجری، پشتو، پنجابی، پوٹھواری، پہاڑی، کشمیری، سندھی اور اردو زبانیں شامل ہیں۔ شہری علاقوں میں آباد شینا بولنے والی نئی نسل کے لہجے میں بعض صوتی، صرفی اور لغوی تغیّر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ دور میں شینا زبان کے مختلف لہجے اپنے اپنے جغرافیائی منطقوں میں بے شمار دوسری زبانوں کے ساتھ لسانی روابط ہیں۔ نظام تعلیم، دفاتر اور طبی مراکز وغیرہ میں اردو زبان کا رابطہ عام ہے جبکہ مذہبی تعلیم کے میدان میں عربی اور فارسی سے لسانی واسطہ پڑ رہا ہے۔ ان علاقوں میں سماجی، ثقافتی، تجارتی، مذہبی، تعلیمی، سیاسی اور لسانی روابط کے تحت مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کا ایک دوسرے سے روزمرہ واسطہ پڑتا ہے اور زبانوں کے کئی الفاظ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح کئی مقامی الفاظ معدومی کی طرف اور کئی بیرونی الفاظ دخول کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔ زرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے توسط سے نئے نئے الفاظ زبانوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ گھر، حجرہ اور بیاک کے ماحول میں جو روایتی گفتگو اور لوک دانش پر بات چیت کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا اب اس کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ مقامی زبانوں میں زرعی اوزار و زراعت، لباس، گھریلو اشیاء، موسیقی کے آلات اور روایتی دُھنیں، خوراک، ہتھیار اور نظام قرابت داری سے متعلق بعض قدیم الفاظ معدومی کا شکار ہیں اور نوجوان نسل اس قسم کے الفاظ سے بالکل آگاہ نہیں۔ اس کے با وجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ شینا زبان کا لسانی ماحول کسی حد تک سازگار ہے اور وہ جنگ و جدل اور لشکر کشی اب نہیں جو ماضی بعید میں پائی جاتی تھی۔ اس زبان کو معدومی کا خطرہ نہیں، بولنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور زبان کی ترویج کا عمل جاری ہے۔
== سوشل میڈیا اور شینا قوم ==
سوشل میڈیا کے بدولت مختلف لہجے بولنے والے آپس میں رابطہ میں ہیں اور ایک دوسرے کے لہجوں کے لغوی سرمایہ سے مستفید ہو رہے ہیں جس سے شینا زُبان میں اندرونی طور پر اس کے مختلف لہجوں میں ہم آہنگی اور لُغوی اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بٹالکی، گریزی، دراسی، استوری، گلگتی، چلاسی، پنیالی اور، شینا کوہستانی اور شینا آزاد کشمیری لہجے بولنے والے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے کے قریب ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ انالبتہ تمامخواص مثبتکی باتوںحد تک یہ معمولی کوشش ہے لیکن عوام میں ایسی بیداری نظر نہیں آرہی ہے اور دن بہ دن شینا اصلی الفاظ کی جگہ اردو اور انگریزی کے الفاظ آرہیں ہیں، اس بابت عوام میں کوئی شعور ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زبان کا لوک ادب، فن داستان گوئی اور لوک شعری اصناف و ادب سے اس کے بولنے والے دور ہو رہے ہیں اور اس کے احیاء کی طرف کوئی خاص توجہ اور عملی کوشش نظر نہیں آ رہی۔
 
== شینا حروف تہجی ==