"احمد یمنی شروانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← دیے، ہو سکا، ہو گیا، ہو گئے، == مزید دیکھیے ==
م خودکار: درستی املا ← آبا و اجداد؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 5:
 
=== خاندان اور ابتدائی حالات ===
نام احمد ہے جبکہ والد کا نام محمد تقی ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: احمد بن محمد تقی بن محمد علی بن ابراہیم شروانی۔ اپنے جد کی نسبت سے شروانی کہلاتے تھے۔آپ کا نسب [[صحابی]] [[محمد بن عبد اللہ|رسول]] [[جابر بن عبد اللہ|حضرت جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ]] (متوفی [[78ھ]] مطابق [[697ء]]) سے ملتا ہے۔ احمد شروانی کی پیدائش [[1200ھ]] مطابق [[1786ء]] میں [[یمن]] کے شہر [[الحدیدہ|حُدَیدہ]] میں ہوئی۔ احمد شروانی کے آباؤآبا و اجداد [[مدینہ منورہ]] سے ہجرت کرکے [[بغداد]] چلے گئے تھے اور بعد ازاں معاش کے سلسلے میں [[بغداد]] سے [[ہمدان]] آگئے تھے۔ احمدشروانی کے پردادا مرزا ابراہیم ہمدانی شہنشاہ [[فارس]] [[نادر شاہ|نادر شاہ افشار]] کے وزیر ہو گئے۔ اُنہوں نے [[نادر شاہ|نادر شاہ افشار]] کے مظالم کو دیکھتے ملازمت سے استعفا دے دیا اور [[نجف|نجف الاشرف]] میں سکونت اختیار کرلی۔اُن کے فرزندِ رشید مستوفی الملک محمد علی [[نادر شاہ|نادر شاہ افشار]] کے قہر و غضب کا شکار ہوکر قتل کردیے گئے۔ مستوفی الملک کے بیٹے محمد تقی روپوش ہو گئے اور شیخ محمد کا نام اختیار کرکے شروان نامی علاقہ میں رہنے لگے۔ بعد میں [[نجف|نجف الاشرف]] پہنچے اور سید مہدی طباطبائی مجتہدالعصر کے سامنے زانوئے تلمذ اِختیار کیا۔ [[نادر شاہ|نادر شاہ افشار]] کے زمانے میں شیخ محمد کے چچا مرزا محمد حسن خاں [[ہندوستان]] کے شہر [[وارانسی|بنارس]] آگئے لیکن اُن کی آمد کے تھوڑے ہی دِن کے بعد مرزا محمد حسن خاں کا اِنتقال ہو گیا۔ شیخ محمد کی اولاد سے اُن کا نباہ نہ ہو سکا اور وہ [[وارانسی|بنارس]] چھوڑ کر [[لکھنؤ]] چلے گئے۔ [[لکھنؤ]] میں اُن دِنوں [[آصف الدولہ|نواب آصف الدولہ]]، [[نواب اودھ|وزیرالممالک اَوَدھ]] (متوفی [[21 ستمبر]] [[1797ء]]) کی حکومت تھی۔ اُنہوں نے خوب آؤ بھگت کی اور یہاں زِندگی آرام و آسائش میں بسر ہونے لگی۔کچھ مدت کے بعد محمد تقی [[یمن]] چلے گئے اور وہاں ایک تاجر سید محمد حیدر بغدادی کی بیٹی سے شادی کرلی جن کے بطن سے شیخ احمد شروانی پیدا ہوئے۔<ref>اختر راہی: تذکرہ مصنفین [[درس نظامی]]، صفحہ 61۔</ref>
 
=== تعلیم و تدریس ===
شیخ احمد نے معروف علمائے عصر محسن النخعی، [[بہاء الدین عاملی|محمد بن عزّ الدین حسین شیخ بہاء الدین عاملی]] (متوفی [[یکم ستمبر]] [[1621ء]])، علی الزبیری اور ابراہیم الصنعائی سے اِکتساب علم کیا۔ عنفوانِ شباب میں [[ہندوستان]] چلے آئے اور مختلف شہروں کی سیاحت کے بعد [[کولکاتا|کلکتہ]] پہنچے۔ [[کولکاتا|کلکتہ]] میں مدرسہ عالیہ کے سیکرٹری ڈاکٹر لیمسڈاؤن (Lamsdown) سے ملاقات ہوئی۔ لیمسڈاؤن نے مدرسہ عالیہ میں [[عربی زبان]] کی تدریس کی خدمت پر شیخ احمد کو مامور کیا۔ مدرسہ عالیہ میں شیخ احمد کتنی مدت تک رہے؟ اِس کے متعلق مدرسہ عالیہ کا تاریخ نگار لکھتا ہے کہ: ’’اِس (اَمر) کا پتہ نہ چل سکا کہ آپ کتنے دِنوں تک مدرسے میں رہے، البتہ ڈاکٹر لیمسڈاؤن کے سیکرٹری رہنے کا زمانہ [[1821ء]] سے شروع ہوتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ آپ اِس کے بعد تشریف لائے ہوں گے اور [[1830ء]] سے پہلے چلے گئے ہوں گے کیونکہ اِس سال ڈاکٹر لیمسڈاؤن مدرسہ عالیہ سے رخصت ہو گئے تھے۔‘‘<ref>تاریخ مدرسہ عالیہ: جلد دؤم،  صفحہ 183۔</ref>
 
مدرسہ عالیہ سے ترکِ تعلق کے بعد [[کولکاتا|کولکتہ]] سے [[لکھنؤ]] آگئے اور [[نواب اودھ]] [[غازی الدین حیدر شاہ]] (متوفی [[19 اکتوبر]] [[1827ء]]) کے مصاحب بن گئے۔ رکن الدولہ سید محمد اسماعیل خاں رِضوی مرشدآبادی کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ [[نواب اودھ]] [[غازی الدین حیدر شاہ]] کی وفات کے بعد [[لکھنؤ]] سے اُن کا دِل اُچاٹ ہو گیا اور [[لکھنؤ]] چھوڑ کر [[وارانسی|بنارس]] چلے گئے۔ [[وارانسی|بنارس]] میں قیام کے دوران ہی وہ نواب جہانگیر محمد خان، [[نواب بھوپال]] کے اتالیق مقرر ہوئے اور [[ریاست بھوپال]] چلے گئے۔ غالباً یہ واقعہ [[1830ء]] کے بعد پیش آیا ہوگا۔
 
== وفات ==
[[ریاست بھوپال]] میں نواب جہانگیر محمد خان کے ابتدائی زمانہ حکومت تک رہے۔ بعد ازاں [[ممبئی| بمبئی]] کی سیروسیاحت کرتے ہوئے [[پونے|پونہ]] پہنچے۔ [[پونے|پونہ]] میں قیام کے دوران ہی 19 [[ربیع الاول]] [[1256ھ]] مطابق [[21 مئی]] [[1840ء]] کو انتقال ہوا۔<ref>[[مالک رام]]: تلامذہ غالب، صفحہ 127، مطبوعہ [[1957ء]]۔</ref><ref>اختر راہی: تذکرہ مصنفین [[درس نظامی]]، صفحہ 62۔</ref> شیخ احمد شروانی کے بیٹے محمد عباس شروانی رفعتؔ [[مرزا غالب|مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ دہلوی]] (متوفی [[15 فروری]] [[1869ء]]) کے شاگرد تھے۔
 
== تصانیف ==
شیخ احمد شروانی کی تصانیف یہ ہیں:
 
* نفحۃ الیمن: یہ کتاب اُنہوں نے مدرسہ عالیہ، کلکتہ کے دورانِ قیام میں لکھی تھی۔ مدتِ دراز تک مدرسہ عالیہ کے نصاب میں شامل رہی۔
* عجب العجائب بمایفید الکتاب : یہ عربی مکتوبات کا مجموعہ ہے۔
* الجوہر الوقاد فی شرح قصیدہ بات سعاد
* مناقب حیدریہ: یہ کتاب [[نواب اودھ]] [[غازی الدین حیدر شاہ]] کی تعریف و منقبت میں لکھی گئی تھی۔ ت
* اج الاقبال فی تاریخ ملک بھوپال
* حدیقۃ الافراح
* منہج البیان
* الشافی
* جوارس التفریح
* بحرالنفائس