"مفردات القرآن (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م محمد شعیب نے صفحہ المفردات فی غریب القرآن کو مفردات القرآن (کتاب) کی جانب منتقل کیا: عربی کتاب کا اردو نام
درستی
سطر 1:
{{خانہ معلومات کتاب/عربی}}
'''ابوالقاسم حسن بن محمد''' المعروف علامہ [[راغب اصفہانی]](متوفی [[502ھ]] - [[1108]]ء) کی [[تصنیف]] ہے
اس کا پورا نام "المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن" ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر "المفردات فی غریب القرآن"کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے "مفردات القرآن" سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ اس میں 1589 مواد پر بحث کی گئی بعض ایسے الفاظ کو بھی زیر بحث لایا گیا جو متروک ہیں۔ یہ کتاب [[حروف تہجی]] کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی۔ طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کیے جاتے ہیں پھرانہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کے لیے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہو جاتے ہیں۔ بہت سے مصنفین اور ائمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے<ref>مفردات القرآن حصہ اول ،راغب اصفہانی،صفحہ 19،اسلامی اکادمی لاہور</ref>
 
== کتاب میں مصنف کا منہج ==
امام اصفہانی نے قرآنی آیات کے ہر لفظ کی صرفی تحقیق و بحث کی ہے، اس لفظ کا حدیث اور شعر سے استشہاد کیا ہے، اور اس کے مجاز و تشبیہ کا بھی ذکر کیا ہے، اس کتاب کو الف باء کی ترتیب پر مرتب کیا ہے۔ قرآن کے مفرد الفاظ کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کیا ہے، الف سے یا کی ترتیب کے مطابق۔ چنانچہ (حسب) کا لفظ (حسد) سے پہلے ہے اور یہ دونوں الفاظ (خرج) سے پہلے ہیں۔
 
== کتاب کی خصوصیات ==
احمد حسن فرحات نے کتاب کی جو خصوصیات بیان کی ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
# کلمۃ کی اصل ظاہر کرنا :- یعنی کلمہ کے اصل کا ایسا معنی بیان کر دینا جو اپنے تمام معانی کو شامل ہو، ایسا لگتا ہے کہ اصفہانی اس سلسلہ میں ابن فارس کی کتاب "معجم مقاییس اللغۃ" سے متأثر ہیں۔
# استعارہ میں استعمال معانی کی تحقیق۔
# صحیح معانی کی تحقیق :- یعنی کبھی کبھی انبیاء کے تعلق سے بعض ایسی باتیں آتی ہیں کہ اس کی اگر اس کی تاویل کسی دوسرے معنی میں نا کی جائے تو نبی کی عصمت پر زد آسکتی ہے، اسلیےاس لیے ایسی جگہوں پر اصفہانی ایک ایسا صحیح معنی تلاش کرتے ہیں جو نبی کی عصمت کے شایان شان ہو۔
# ظنی اور غیر مراد معانی کی نفی : یعنی بعض مواقع پر بسا اوقات قاری کے ذہن میں ایک لفظ کے کئی کئی معانی آجاتے ہیں حالانکہ اصل معنی انکے علاوہ ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اصفہانی ان تمام غیر مراد معانی کی نفی کردیتے ہیں اور لفظ کے مناسب معنی کی وضاحت کر دیتے ہیں، جیسے کہ لفظ خوف (ڈرنا) کے تعلق سے اصفہانی نے الخوف من اللہ (اللہ سے ڈرنا) لکھا ہے۔ یعنی عام طور سے جو ڈرنا سمجھا جاتا ہے وہ مراد نہیں ہے، جیسے شیر سے ڈرنا۔ یہاں اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی سے بچا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے۔
# قواعد کلیہ : بہت سے مقامات پر اصفہانی بعض کلمات کی تشریح کرتے ہوئے قاعدہ کلیہ بیان کر دیتے ہیں، یعنی اس کلمہ کے قرآنی استعمال کی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ مثلا: کہتے ہیں (لفظ "تبارک" قرآن میں جہاں بھی استعمال ہوا ہے وہ اللہ کی خیر کی صفات کے ساتھ خاص ہے)
# قواعد اکثریہ : بعض جگہوں پر اصفہانی یہ وضاحت کردیتے کہ یہ لفظ اس معنی میں اکثر استعمال ہوتا ہے، تاکہ اس کے کلی معنی کی نفی ہو جائے۔ مثلا: لکھتے ہیں (لفظ "سعي" کا زیادہ تر استعمال قابل تعریف احوال کے لیے ہوتا ہے)
 
== حوالہ جات ==