"غلام اسحاق خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
39.45.4.219 (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 4104851 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
(ٹیگ: رد ترمیم)
سطر 43:
[[فائل:Ghulam ishaq khan.jpg|framepx|تصغیر|بائیں]]۔۔1984 کے اواخر میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بحالی جمہوریت کا محدود اور محتاط عمل شروع ہوا تو غلام اسحاق خان کو سینیٹ کا چیئرمین بنایا گیا جو آئینی اعتبار سے صدر کا جانشین عہدہ ہے۔ چنانچہ جب 17اگست 1988 کو غلام اسحاق خان نے بحیثیت قائم مقام صدر مملکت باضابطہ طور پر تصدیق کی کہ صدر ضیا الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا ہے تو اس وقت پورے ملک میں یہ انتظار ہو رہا تھا کہ فوج کب اقتدار سنبھالتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ جنرل [[ضیاء الحق|ضیا الحق]] کے غیر جماعتی فارمولے کو طاق پر رکھ دیا گیا اور تین ماہ بعد جماعتی بنیاد پر عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔
 
لیکن اس عرصے میں [[پاکستان پیپلز پارٹی|پیپلز پارٹی]] کی طاقت کو بیلنس کرنے کے لیے غلام اسحاق خان کی آنکھوں کے سامنے [[بین الخدماتی مخابرات|آئی ایس آئی]] کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد کی شکل میں ایک قوت بھی کھڑی کردی گئی۔ بہرحال پیپلز پارٹی کو مشروط طور پر اقتدار منتقل کیا گیا۔ اور ڈیل کے تحت غلام اسحاق خان پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کی مشترکہ حمایت سے دسمبر1988میں [[نوابزادہ نصراللہنصر اللہ خان]] کے مقابلے میں پاکستان کے ساتویں صدر منتخب ہو گئے۔
 
صدر غلام اسحاق خان کو آٹھویں آئینی ترمیم کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے جج اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار بھی حاصل تھا۔ لیکن ان کی نہ تو بے نظیر بھٹو سے اور نہ ہی بعد میں نواز شریف حکومت سے نبھ سکی۔ اور اگست انیس سو نوّے میں بے نظیر حکومت اور اپریل انیس سو ترانوے میں نواز شریف حکومت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئیں۔