"حکیم اجمل خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 14:
کالج کی تاریخ پر ایک سرسری نظر، 29مارچ 1916ءکو مسیح الملک ؒ نے لارڈ ہارڈنگ کے ذریعہ باضابطہ طور سے آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا تھا۔ تاکہ انگر یز و ں کی متعصبانہ سازشیں دیسی طبوں کی باد بہاری کو زہر آلود نہ کرنے پائیں اوریہ سبھی فنون ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں۔ کالج کے سنگ بنیاد کے ساتھ ہی وہاں طب کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ کالج کے مصارف کے مستقل انتظام کیلئے انہوں نے ایک شاندار دوا خانہ قائم کیا۔ ’’ہندوستانی دوا خانہ دہلی‘‘ کے نام سے، اس کی آمدنی کالج کیلئے وقف تھی۔ ملک اور قوم کیلئے ان کا دل کس قدر فیاض تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ مولانا اخلاق حسین دہلویؒ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ سردی کا موسم، کڑا کے کا جاڑا، رات کا وقت، بارہ ایک کا عمل، بازاروں میں سناٹا۔ وہ کسی تقریب میں شریک ہو کر آ رہے تھے۔ جامع مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ہلکے ہلکے بگھی آئی اور جنوبی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس ٹھہر گئی۔ حکیم محمد اجمل خاںؒ باہر نکلے۔ سیڑھیوں پر جو لوگ سکڑے سکڑے پڑے تھے، گاڑی میں سے لحاف نکالتے اور ہر ایک کو آہستہ سے اوڑھا دیتے۔ جب سب کو اڑھا چکے تو گاڑی ہلکے ہلکے ہرے بھرے صاحب کے مزار کی طرف چلی گئی۔ یہ تھا کالج کے بانی کا حسن اخلاق اور غریبوں، بے سہاروں اور مسکینوں کیلئے ان کے دل میں ہمدردی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا جذبہ۔
 
دوسری طرف تھی ان کی اپنے ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں سے بے پناہ محبت جس کی مثالیں کم نہیں تو معدوم ضرور ہیں۔ وہ ایک طرف کانگریس کے مضبوط لیڈر تھے تو اسی کے ساتھ ہندومہاسبھا کے قابل اعتبار ذمہ دار بھی۔۔ ان کی قربانیوں اور خوابوں کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس کوو سعت دی جاتی کالج کو ترقی دیکر یونانی اینڈ آیورویدک یونیورسٹی کا درجہ دیا جاتا جہاں سیکولر اور ہندومسلم اتحاد کا مثالی ماحول دنیا کیلئے درس عبرت ثابت ہوتا۔ مگر ہائے افسوس کہ حکومتیں اس کی جڑیں کاٹنے میں ہی سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔
 
== خطاب ==