"نو نہال سنگھ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Inayat adel (تبادلۂ خیال) کی ترامیم JarBot کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع)
م Tahir mq (تبادلۂ خیال) کی ترامیم Inayat adel کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع)
سطر 29:
 
نونہال سنگھ لا ولد تھا۔ اس کی ماں چاندکور نے افواہ پھیلا دی کہ اس کی بہو صاحب کور عرف بی بی نانکی امید سے ہے اس لیے چاند کور نے اس آنے والے بچے کے نام پر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور ملکہ مقدس کا خطاب اختیار کیا۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
'''قلعہ اکال گڑھ سے قلعہ اقبال گڑھ تک
'''----------------------------
خود کو اور اپنی افواج کو محفوظ بنانے، اسلحہ اور دیگر سامان حرب کو ذخیرہ کرنے اور جنگجوئوں کی تربیت و کسرت کی خاطر قلعہ جات تعمیر کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی میں فاتحین جس علاقے کو بھی فتح کرتے، ان کی فتح کا حتمی اعلان مخالف بادشاہ یا متوازی مسند نشین کے قلعے پر قبضہ کر لینے ہی کی صورت میں منظر عام پر آتا۔ اسی طرح اگر کوئی فاتح کسی ایسے علاقے کو فتح کرتا کہ جہاں قلعہ جیسی محفوظ عمارت موجود نہ ہوتی تو وہ خود سے اپنے لئے قلعہ تعمیر کرواتا جبکہ اگر اسے اپنے مفتوحہ علاقہ جات میں کوئی مقام اپنے فطری ذوق یا حربی ضرورت کے مطابق پسند آ جاتا تو وہ وہاں بھی قلعہ تعمیر کر دیتا۔ برصغیر میں جنگوں کی تاریخ جتنی طویل ہے ، اسی قدر قلعہ جات بھی اس خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے چونکہ نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے تو ماضی میں بھی اسی اہمیت کے تناظر میں مختلف حملہ آور وں نے نا صرف یہاں سے گزر کیا بلکہ ان میں سے کچھ نے اپنی ضروت کے تحت قلعے بھی تعمیر کئے۔ انہی قلعہ جات میں سے ایک قلعہ ''اکال گڑھ'' کے نام سے ڈیرہ اسماعیل خان میں تعمیر کیا گیا جسے ان دنوں ''قلعہ اقبال گڑھ کہا جاتا ہے۔ ڈیرہ شہر کے گردا گرد سرکلر روڈ سے شمال مغربی سمت چند قدم کے فاصلے پر واقع اس قلعہ کا رقبہ کئی سو کنال تک پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک سکھ نوجوان کنول نونہال سنگھ نے 1835میں محض ڈھائی سے تین ماہ کی مدت میں تعمیر کروایا تھا۔
نونہال سنگھ کون تھا؟ نونہال سنگھ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پوتا اور کھڑک سنگھ کا بیٹا تھا سے اس کے باپ نے نہایت کم عمری میں مختلف قسم کی مہمات کی سپہ سالاری سونپ رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب کھڑک سنگھ کو ڈوگروں اور خود سکھوں کے کچھ دھڑوں کی جانب سے شدید مشکلات کا سامنا تھا، انہی دنوں 1834میں کھڑک سنگھ نے اپنے بیٹے کنول نونہال سنگھ کو پشاور فتح کرنے کے لئے روانہ کیا۔ سکھ1818میں ملتان فتح کر چکے تھے اور دیرہ جات و ٹانک والی منکیرہ کے زیر نگیں تھے جبکہ مقامی طور پر ان علاقہ جات کا انتظام و انصرام نوابین کے ہاتھ میں تھا اور مزکورہ عرصہ میں یہاں نواب صمد خان والی ڈیرہ کہلاتے تھے تاہم جب کنول نونہال سنگھ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا تو اس وقت نواب شیر محمد خان والی ڈیرہ تھے۔
پشاور فتح کرنے کے بعد نونہال سنگھ ابھی پشاور اور اٹک میں اپنے والی تعینات کر رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ ٹانک اور دیرہ جات میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔وہ اپنی فوج کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا اور یہاں پر ایک قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ چونکہ دریا برد ہونے کے بعد 1824میں دوبارہ آباد ہوا تھا اس لئے قلعہ کا موجودہ مقام اس وقت کے ڈیرہ شہر سے تقریباایک چوتھائی میل کے فاصلے پر بتایا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بنیادی طور پر پختہ اینٹوں سے سے تعمیر کیا گیا تھا تاہم مٹی کے پشتوں کو اس قدر بلندی تک لے جایا گیا کہ پہلی نظر میں یہ مٹی سے بنا معلوم ہوتا۔ روایات میں ہے کہ قلعہ کی تعمیر کے وقت یہ مقام باقی شہر سے کافی بلندی پر واقع تھا ۔وسیع و اریض دالان ، جا بجا گھاس کے قطعات، دربار کے لئے کھلا اور ہوادار بڑا سا ہال، فوجیوں کے لئے بیرکیں، اسلحہ کے لئے گودام اور گھوڑوں کے اصطبل کے لئے مخصوص کمروں اور کھلے میدانوں کا حامل یہ قلعہ دراصل نونہال سنگھ کی ڈیرہ کے مقام پر مستقل رہائش اور اپنی مہمات کو مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے تاہم وہ اس قلعہ میں محض چند ماہ تک ٹھہر سکا اور اسے واپس لاہور بلا لیا گیا جہاں 1837میں اس کی شادی شام سنگھ اٹاریوالہ کی بیٹی نانکی کے ساتھ کر دی گئی۔اپنے جانے سے قبل کنول نونہال سنگھ نے دولت رائے، جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی موجودہ تحصیل درابن سے تھا، کو والی منکیرہ بنایاجو نواب شیر محمد خان کے منشی لکی مل کے فرزند تھے اور اپنی تعلیمی استعداد کی بدولت اپنے والد لکی مل کی جگہ نواب شیر محمد خان کے اکائونٹینٹ یا منشی گیری کے فرائض انجام دیتے چلے آ رہے تھے۔ نونہال سنگھ نے مقامی نوابین کے وظیفے مقرر کئے اور لاہور روانہ ہو گیا۔5نومبر 1840کو کھڑک سنگھ انتقال کر گیا جبکہ اس سے ٹھیک تین بعد کنول نونہال سنگھ بھی حضوری باغ کے گرنے والے ایک چھجے کے نیچے زخمی ہونے کے بعد فوت ہو گیا۔
دسمبر 1845میں انگریز فوج نے لاہور پر حملہ قبضہ کر لیا جبکہ 16دسمبر 1846 کو ایک نئے معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی روسے ایک کونسل آف ریجنسی مقرر کی گئی اور برطانوی ریذیڈنٹ پورے صوبے کا حقیقی حکمران بن گیا۔ قلعہ لاہورمیں برطانوی فوج تعینات کر دی گئی اور بنگلے تعمیر کر دئیے گئے۔ آگے چل کر پنجاب بھر اور اسی حوالے سے دیرہ جات میں بھی انگریز راج کا آغاز ہوا اور انگریز نے والی منکیرہ دولت رائے کو خاص اہمیت دیتے ہوئے اسی اس مسند پر قائم رکھا۔ اکال گڑھ کے قلعہ میں بھی انگریز فوج آ براجمان ہوئی جس نے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ یہاں پر چاند ماری کی تعمیر کی جہاں انگریز فوج اور مقامی افراد پر مشتمل فوج نشانہ بازی کی مشق کرتے۔ انگریز نے زمانہ امن میں اس قلعہ کو جیل یا قید خانہ کے طور پر بھی استعمال کیا جبکہ کسی معرکے کی صورت میں یہ قلعہ حفاظت اور عسکری منصوبہ بندیوں کا مرکز رہا۔ تاہم تاریخ اس قلعہ کو باقائدہ فوجی مرکز یا اسلحہ کا گودام ثابت نہیں کرتی۔
تقسیم کے نتیجے میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور برطانوی راج کا خاتمہ ہوا تو پاک فوج نے اکال گڑھ قلعہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور تب سے اسے اکال قلعہ کے بجائے ''اقبال گڑھ قلعہ '' کے نام سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے۔ آج بھی اس قلعہ کو پاک فوج چھائونی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔عسکری حکام نے گو کہ اس قلعہ میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تزئین و آرائش اور سہولیات کی حد تک تبدیلی ضرور شامل کی ہے تاہم قلعہ کا بنیادی ڈھانچہ اور چاند ماری سمیت تمام عمارات اپنی اصل شکل میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ بہتر دیکھ بھال کی بدولت محفوظ بھی ہیں۔ اکال پنجابی کا لفظ ہے جو سکھ فاتح '' فتح کا سلام '' کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کا ایک مطلب ''ابدی'' کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس قلعہ کو ''اقبال '' کے نام سے موسوم کرنے کے پیچھے جہاں ڈاکٹر علامہ اقبال سے اسے منصوب کرنا خیال کیا جاتا ہے وہیں لفظ کے اقبال کے لفظی مطالب یعنی ''بخت بلند'' بھی اس قلعہ کے نئے نام کی توجیہہ ہو سکتی ہے۔
(عنایت عادل، ڈیرہ اسماعیل خان)
 
 
 
 
{{s-start}}