"سید احمد بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
دو اہم تاریخی حوالے
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 83:
اس خط سے واضح ہے کہ سید احمد ایک تو یہ چاہتے  تھے کہ افغان حکمران ان کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھ کر سکھوں سے اتحاد نہ کر لیں، دوسرے ان کی توجہ  ہندوستان میں انگریزوں سے لڑنے کی بجائے  وہاں محمد ابن عبد الوہاب کی طرز پر شرک و کفر کے نام پر مسلمانوں کے اندر جھگڑا کرنے پر  تھی، جیسا کہ پختون علاقوں میں آنے سے قبل وہ یہی کام کرتے تھے۔ البتہ اس خط کو بنیاد بنا کر برصغیر کی آزادی کے بعد ان کو  تحریک آزادی کے رہنماؤں میں شامل کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔حالانکہ انہوں نے اگر انگریزوں کے خلاف کچھ کرنا ہوتا تو اسی زمانے میں بنگال میں انگریزوں کے ظالمانہ "بندوبست دوامی" کے قانون کی وجہ سے مسلمان ہاریوں اور کسانوں کا برا حال تھا اور وہ [[فرائضی تحریک]] کا حصہ بن کر انگریزوں اور ہندوؤں کےظلم  کے خلاف کھڑے ہوچکے تھے۔سید احمد نے الٹا ان غرباء کو بھرتی کر کے سکھوں کے خلاف استعمال کیا جس سے انگریزوں کا دوہرا فائدہ ہوا ۔
 
== حصول اقتدار اور طرزِ حکمرانی ==
== طالبانی ریاست ==
سید احمد کی پہلی جنگ 21 دسمبر 1826ء کو بمقام اکوڑہ ہوئی اور اس میں نہ صرف انہیں کامیابی ہوئی بلکہ مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔ اس کامیابی نے ان کے حوصلے بڑھا دئے اور سرحد کے قبائل میں اس فتح نے ان کے اثر و رسوخ کو بڑھا دیا۔ اس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ انتظامات اور دوسرے امور کے لیے باقاعدہ تنظیم ہو تاکہ شریعت کے مطابق باقاعدہ فیصلے کیے جائیں۔ اس کی روشنی میں11 جنوری 1827ء کو آپ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی اور آپ کو امیر المومنین منتخب کرکے خلیفہ کے خطاب سے پکارا جانے لگا۔ یہ کوئی ایسی ریاست نہیں تھی جو انسانی سرمائے کو استحکام اور آزادی کی فضا مہیا کر کے عوام کی زندگی میں بہتری لاتی، غربت اور بیماریوں کا خاتمہ کرتی۔ اس زمانے میں مغرب میں صنعتی اور طبی انقلاب کا آغاز ہو چکا تھا جس نے آگے چل کر دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضہ جمایا، تحریک مجاہدین کے نیم خواندہ امیر کو بدلتی دنیا کی کوئی خبر نہ تھی۔   پشتون علاقوں میں انہوں نے فقہ حنفی کو  وہابی عقائد کے ساتھ ملا کر نافذ کیا۔ پختون تہذیب پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم دیا کہ کوئی بالغ لڑکی شادی کے بغیر نہیں ہونی چاہئیے۔سید احمد کے کارندے باجماعت نماز میں شریک نہ ہو سکنے والے شخص کو کوڑے لگاتے۔مارنے پیٹنے اور کوڑے مارنے کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ اگر کوئی مجاہد کسی دیہات میں چلا جاتا تو وہاں افراتفری اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔ سزا دینے کے معاملے میں انتہائی تشدد سے کام لیا گیااور یہاں تک ہوا کہ لوگوں کو درختوں کی شاخوں پرلٹکا  دیا جا تا تھا۔ عورتوں میں بھی جو نماز چھوڑ دیتی تھیں انہیں زنان خانے میں سزائیں دی جاتی تھیں۔ انہوں نے   بنگال و بہار سے لائے گئے کالے مجاہدین کی مقامی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں کیں۔ یہاں تک ہوا کہ کوئی لڑکی جارہی ہے اور کسی مجاہد نے اسے پکڑ لیا اور مسجد لے جاکر زبردستی نکاح کر لیا۔ ایک ہندوستانی   نے جب اس طرح سے ایک خوشیکی سراد ر لڑکی سے شادی کی تو اس نے اپنے مخالف خٹک قبیلے کے سردار سے درخواست کی کہ اس کی مدد کرے، اس پر خٹک سردار نے قبیلے کے سامنے اپنی لڑکی کا دوپٹہ اتار کر یہ عہد کیا کہ وہ جب تک پٹھان کی عزت کا بدلہ نہیں لے گا چین سے نہیں بیٹھے گا<ref name=":1" />۔