"سید احمد بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 96:
’’''1849ء میں اس مکان (کربلا گامے شاہ) پر سخت صدمہ آیا تھا کہ 10 محرم کے روز جب ذوالجناح نکلا تو رستہ میں، متصل شاہ عالمی دروازے کے، مابین قوم شیعہ و اہل سنت کے سخت تکرار ہوئی۔ اور نوبت بزد و کوب پہنچی۔ قوم اہلسنت نے اس روز چاردیواری کے اندرونی مکانات گرا دیئے۔ مقبرہ کے کنگورے وغیرہ گرا دیئے۔ چاہ کو اینٹوں سے بھر دیا۔ گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر ایڈورڈ صاحب دپٹی کمشنر نے چھاونی انارکلی سے سواروں کا دستہ طلب کیا تو اس سے لوگ منتشر ہو گئے۔ اور جتنے گرفتار ہوئے ان کو کچھ کچھ سزا بھی ہوئی'' ‘‘<ref>کنہیا لال، ”تاریخ لاہور“، صفحہ 305، وکٹوریہ پریس لاہور، (1884)۔</ref>۔
 
رنجیت سنگھ کی وفات اور پنجاب کے انگریزوں کے ہاتھوں فتح ہونے کے بعد انگریزوں نے سید احمد کی تحریک مجاہدین کی باقیات کا صفایا کر دیا: ان کی پشت پناہی کا مقصد ختم ہو چکا تھا۔
رنجیت سنگھ کی وفات اور پنجاب کے انگریزوں کے ہاتھوں فتح ہونے کے بعد انگریزوں نے سید احمد کی تحریک مجاہدین کی باقیات کا صفایا کر دیا: ان کی پشت پناہی کا مقصد ختم ہو چکا تھا۔ ان کے مریدوں  نے ان کے بارے میں عجیب و غریب مگر غیر قابل تصدیق کرامات وضع کیں جن کو  سو سال بعد مرزا حیرت دہلوی جیسوں نے اپنی کتابوں  میں درج کیا۔ حنفیت، تصوف، وہابیت اور عسکریت پسندی کا یہ امتزاج بعد ازاں 1867ءمیں دار العلوم دیوبند کے قیام  کی شکل میں سامنے آیا۔ دیوبندی مکتب فکر میں سید احمد بریلوی کی سوچ کو اپنانے کا رجحان اس مکتب فکر کی تشکیل کے ابتدائی دنوں سے موجود تھا۔  یہ رجحان پیر امداد الله مہاجر مکی،  مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی کی تحریروں میں دیکھاجا سکتا ہے۔ پیر امداد الله مہاجر مکی بھی نیم خواندہ تھے اور ان کے بقول وہ  سید احمد بریلوی کو خوابوں میں دیکھتے رہے<ref name=":2" />، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ذہن  پر  سید احمد بریلوی  کا اثر کتنا گہرا تھا؟
اس زمانے میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے پیروکاروں کےلیے ’وہابی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں یہ مکتب فکر دیوبندی اور اہلحدیث میں تقسیم ہو گیا۔ انگریز دورمیں مرتب کردہ کچھ گزیٹئرز موجودہ پاکستان کے علاقوں میں وہابیوں کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ درج ذیل جدول میں ان گزیٹئرز میں موجود اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔
 
انگریز دور کی مردم شماری کے مطابق مسلمان آبادی میں وہابیوں کا تناسب
سال ضلع وہابیوں کی تعداد گزیٹئر کے صفحے کا حوالہ
98–1897 پشاور 0.01% صفحہ 110
84 –1883 شاہ پور 0.07% صفحہ 40
84 –1883 جھنگ 0.02% صفحہ 50
94 – 1893 لاہور 0.03% صفحہ 94
جہاں یہ اعداد و شمار سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے پیروکاروں کی ان علاقوں میں موجودگی کا پتا دیتے ہیں، وہیں ان میں بتائی گئی تعداد اصل تعداد سے کم ہے کیوں کہ اس زمانے میں وہابی کہلاۓ جانے والے لوگ انفرادی زندگی میں اپنے مسلک کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہابیوں میں تقیہ کے اس رجحان کی طرف لاہور کےگزیٹئرمیں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:۔
”وہابیوں کی گنتی انکے اصلی تخمینے سے بہت کم ہے؛ شاید اکثر وہابی مسلمانوں نے اپنی وہابی شناخت کو ظاہر کرنا محفوظ نہ سمجھا“۔
رنجیت سنگھ کی وفات اور پنجاب کے انگریزوں کے ہاتھوں فتح ہونے کے بعد انگریزوں نےالبتہ سید احمد کی تحریک مجاہدین کی باقیات کا صفایا کر دیا: ان کی پشت پناہی کا مقصد ختم ہو چکا تھا۔ انبریلوی کے مریدوں  نے ان کے بارے میں عجیب و غریب مگر غیر قابل تصدیق کرامات وضع کیں جن کو  سو سال بعد مرزا حیرت دہلوی جیسوں نے اپنی کتابوں  میں درج کیا۔ حنفیت، تصوف، وہابیت اور عسکریت پسندی کا یہ امتزاج بعد ازاں 1867ءمیں دار العلوم دیوبند کے قیام  کی شکل میں سامنے آیا۔ دیوبندی مکتب فکر میں سید احمد بریلوی کی سوچ کو اپنانے کا رجحان اس مکتب فکر کی تشکیل کے ابتدائی دنوں سے موجود تھا۔  یہ رجحان پیر امداد الله مہاجر مکی،  مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی کی تحریروں میں دیکھاجا سکتا ہے۔ پیر امداد الله مہاجر مکی بھی نیم خواندہ تھے اور ان کے بقول وہ  سید احمد بریلوی کو خوابوں میں دیکھتے رہے<ref name=":2" />، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ذہن  پر  سید احمد بریلوی  کا اثر کتنا گہرا تھا؟
 
انگریزوں نے اس گروہ کا بڑی دقت سے مطالعہ کیا اور کئی مفصل رپورٹس مرتب کی تھیں۔ جب انگلستان عالمی طاقت نہ رہا اور اس کی جگہ امریکا نے لے لی تو اسے ایک بار پھر سید احمد بریلوی کی تحریک مجاھدین کی ضرورت پڑی جب روس کے خلاف جنگ کے لیے افغانستان کا انتخاب کیا گیا۔ سکھوں کے خلاف جنگ کی ہو بہو نقالی کے لیے افغان جہاد کے سلسلے میں جن افراد کو اتارا گیا انکا مرکز اکوڑا خٹک کا مدرسہ تھا۔ یہی وہ قصبہ تھا جہاں سید احمد بریلوی نے پہلی فتح حاصل کی تھی۔ موجودہ دور میں برصغیر کی جہادی تنظیموں کی سید احمد بریلوی سے وابستگی غیر معمولی ہے۔ 1990ء میں جب پاکستان نے جہاد کشمیر کا آغاز کیا تو مجاھدین کے لیے ٹریننگ کیمپ بالا کوٹ میں قائم کرنے کا مقصد بھی ان میں سید احمد بریلوی کی سوچ پیدا کرنا تھا۔ اگرچہ سید احمد بریلوی مزارات اور مکانی مناسبتوں کو شرک قرار دیتے تھے لیکن جو مقامات ان سے منسوب تھے انکا نفسیاتی اثر جہاد افغانستان و کشمیر کے منصوبہ سازوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوا۔