"چند ہم عصر (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 32:
نور خان کی طرح رم دیو بھی ایک غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والا کردار ہے لیکن نور خان شرفاء میں سے تھے جبکہ رام دیو ایک مالی تھا جو کے نچلی زات کا ہندو تھا۔ اسے اپنے کام سے بہت لگن تھی اور بے اولاد ہونے بعد بقول مصنف اپنے پودوں کو اولاد کی طرح چاہتا تھا۔ ایک دن شہد کی مکھیوں کا ھملہ ہوا اپنے کام میں مگن اس ھملہ سے بے خبر دیومکھیوں کے زہر سے جانبر نہ ہوسکا۔
 
"{{اقتباس|مقبرے کا باغ میری نگرانی میں تھا۔ میرے رہنے کا مکان بھی باغ کے احاطے ہی میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنے چمن بنانے کا کام نام دیو کے سپرد کیا۔ میں اندر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔ میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی۔ اس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا ۔لکھتے لکھتے کبھی نظر اٹھا کر دیکھا تو نام دیو کو ہمہ تن اپنے کام میں مصروف پاتا۔ بعض دفعہ اس کی حرکتیں دیکھ کر بہت تعجب ہوتا۔ مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو ایک پودے کے سامنے بیٹھا اس کا تھانولا صاف کر رہا ہے۔ تھانولا صاف کرکے حوض سے پانی لیا اور آہستہ آہستہ ڈالنا شروع کیا۔ پانی ڈال کر ڈول درست کی اور ہر رُخ سے پودے کو مڑ مڑ کر دیکھتا۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ دیکھتا جاتا تھا اور مسکراتا اور خوش ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ کام اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے۔ بےمزہ کام، کام نہیں بیگار ہے۔
 
اب مجھے اس سے دلچسپی ہونے لگی۔ یہاں تک کہ بعض وقت اپنا کام چھوڑ کر اسے دیکھا کرتا۔ مگر اسے خبر نہ ہوتی کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی وہ اپنے پودوں اور پیڑوں ہی کو اپنی اولاد سمجھتا تھا اور اولاد کی طرح ان کی پرورش اور نگہداشت کرتا۔ ان کو سبز اور شاداب دیکھ کر ایسا ہی خوش ہوتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ وہ ایک ایک پودے کے پاس بیٹھتا، ان کو پیار کرتا، جھک جھک کے دیکھتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا ان سے چپکے چپکے باتیں کر رہا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑھتے، پھولتے پھلتے اس کا دل بھی بڑھتا اور پھولتا پھلتا تھا، ان کو توانا اور ٹانٹا دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ کبھی کسی پودے میں اتفاق سے کیڑا لگ جاتا یا کوئی اور روگ پیدا ہوجاتا تو اسے بڑا فکر ہوتا"
 
}}
 
کتاب کے دیگر کرداروں میں منشی امیر احمد ، پروفیسر مرزا حیرت، سید محمود، مولوی چراغ علی، مولوی محمد عزیز، مولوی سید علی بلگرامی، خواجہ غلام شقلین، حکیم امتیاز الدین، مولانا وحیدالدین سلیم، گڈری کالال- نور خان، محسن الملک، غلام قادر گرامی اور حالی شامل ہیں۔