"محمد بن ابوبکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م قتل محمد بن ابی بکر کی تحقیق
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
182.185.201.12 (تبادلۂ خیال) کی 4158262ویں ترمیم کی جانب واپس پھیر دیا گیا۔ (پلک)
(ٹیگ: رد ترمیم)
سطر 110:
}}
'''محمد بن عبد اللہ ''' یہ محمد بن عبد اللہ بن عثمان[[ابوبکر صدیق]] کے بیٹے ان کی والدہ کا نام [[اسماء بنت عمیس]] تھا۔ یہی '''محمد بن ابوبکر''' کہلاتے ہیں
 
 
محمد بن أبی بکر کے قتل کے متعلق مؤرخین نے متعدد صورتیں ایک ذکر کی ہیں، یہاں بالاختصار ذکر کی جاتی ہیں:
 
ایک صورت تو یہ ہے کہ معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ سے ان کا مقابلہ ہوا اور اس کے معارضہ کے دوران میں قتل ہوگئے۔
 
دوسری صورت یہ ذکر کی جاتی ہے کہ معارضہ کے بعد ان کو گرفتار کرکے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا وہاں ان کی باہمی سخت کلامی ہوئی اور پھر ان کو قتل کردیا گیا۔
 
محمد بن أبی بکر کے قتل کی وجہ فریق مخالف کی زبانی اس طرح مذکور ہے کہ معاویہ بن خدیج کندی کی ایک دفعہ عبد الرحمٰن بن أبی بکر سے ملاقات ہوئی  تو عبد الرحمن نے کہا:" اے ابن خدیج ! تو نے معاویہ بن أبی سفیان سے میرے بھائی کے قتل کا أجر حاصل کرلیا اور تجھے مصر کا والی بنادیا گیا ، تو ابن خدیج رض نے کہا کہ میں نے ولایت مصر کے لیے محمد بن أبی بکر کو نہیں قتل کیا تھا بلکہ میں نے تو صرف اس لیے قتل کیا کہ وہ قاتلین عثمان میں شریک تھا"(البیان المغرب فی أخبار المغرب مصنف:ابن عذاری المراکشی)تحت اخبار معاویہ بن خدیج الکندی )
 
مختصر یہ کہ کنانہ بن بشیر اور محمد بن أبی بکر وغیرہ کا مقتول ہونا فریق مخالف کی طرف سے اس بنا پر ہے کہ یہ لوگ حضرت عثمان کے خلاف شورشوں میں شریک تھے۔
 
لیکن معاویہ بن خدیج اور معاویہ بن ابی سفیان کا فرق کیجیے، اگر آپ کا تعصب انصاف کرنے سے آپ کو روکتا ہے تو یہ ہوس کہیں اور پوری کیجیے، اصحاب رسول کی حرمت پامال مت کیجیے۔
 
یہ جو راویت علامہ طبری نے ذکر کی ہے (جس پر شور بپا کیے مبغضین معاویہ بن ابی سفیان علمی خیانت کے مرتکب ٹھہرے ہیں), اور لکھا ہے کہ کہ محمد بن أبی بکر کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور پھر لاش گدھے کی کھال میں داخل کرکے جلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسی روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رض کے قنوت نازلہ پڑھنے اور ناراضگی کا ذکر بھی ہے ، اس کا روای ابو مخنف لوط بن یحیی رافضی بزرگ ہے   ،    یہ اپنی اسناد میں "عن شیخ من أھل المدینہ" کہہ کر نقل کرتا ہے (یعنی نامعلوم آدمی سے راویت، کربلائی +سبائی تاریخ کی پوری عمارت ہی انہیں مجہول الاسناد راویوں پر کھڑی ہے),۔
 
اور یہاں واضح رہے کہ اس روایت کا مصدر حقیقی  تاریخ ابن جریر طبری ہی ہے، انہیں سے باقی مؤرخین نے نقل کی ہے۔
 
اس ابو مخنف لوط بن یحیی کے متعلق محدثین کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
 
(لوط بن یحیی ابو مخنف "أخباری" لا یوثق به .........تركه أبو خاتم وغيره .
 
قال الدار قطني "ضعيف" و قال يحب بن معين "ليس بثقة" و قال مرة "ليس بشيء" .......قال ابن عدي "شيعي" محترف صاحب اخبارهم.
 
مصدر :ميزان الإعتدال للذهبي ، تحت لوط بن يحيٰ
 
لسان الميزان لابن ححر العسقلاني ،تحت لوط بن يحيٰ )
 
  محدثین عظام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی روایت ِمستدلہ کا راوی :ایک قصہ گو اخباری آدمی ہے، اعتماد کے قابل نہیں اور "یہ جلنے والے شیعہ(یعنی کٹر متعصب ) ہے  اور انہیں کی من پسند کہانیاں' بناتا ہے).
 
       یہاں بناء الفاسد علی الفاسد کا معاملہ ہے، فلہذا وحشیانہ سلوک کی داستان من گھڑت ہے۔
 
راویت کی ثقاہت کا انحصار روای کے ثقہ ہونے پر ہے ،اگر روای ثقہ نہیں تو روایت پر کیسے اعتماد کرلیا جائے اور وہ بھی ایسا راوی جو نامعلوم اور مجہول طریقے سے روایت بیان کرتا ہے گویا کہ اسے الہام ہوا ہو۔
 
اب اس روایت کو بنیاد بنا کر پروپیگنڈا کرنے والوں سے گزارش ہے کہ اپنے روای جی کی "ثقاہت" ثابت کریں، اور نہیں کرسکتے تو اپنی خیانتوں پر توبہ اور رجوع الی اللہ کریں۔
 
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ محمد بن أبی بکر رح کو صحابی وہ گروہ مان رہا ہے جو فتح مکہ کے بعد والوں کے ایمان پر سوالات اٹھاتا ہے اور بے لگامی  سے ان اصحاب پر زبان درازی کرتا ہے جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے،،،،،،۔۔۔۔۔جناب ایک سال یا چھ ماہ کے بچے نے کیسے ایمان لایا اور شرف صحابیت بھی پاگیا، جبکہ آپ کو خود اعتراف ہے کہ وہ 9ھ(یعنی وفات رسول سے ایک سال قبل) پیدا ہوئے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
<nowiki>#</nowiki>علمی_خیانت_سنتِ_بنی_اسرائیل---- بقلم- عثمان علی -جانشیں حضرت مولانا محمد نافع رحمہ اللہ
 
== ولادت ==
محمد بن ابوبکر کی ولادت [[25 ذوالقعدہ]] [[10ھ]] کوذوالحلیفہ میں ہوئی [[سنن نسائی]] میں ان کی ولادت کا ذکر ہے۔