"حسین بن منصور حلاج" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 1:
حضرت منصور حلاج (پیدائش [[858ء]]، وفات [[26 مارچ]] [[922ء]]) ایک فارسی صوفی اور مصنف۔ پورا نام ابو المغیث الحسین ابن منصور الحلاج تھا۔
 
آپ کے متعلق عجیب و غریب قسم کے اقوال منقول ہیں۔ لیکن آپ بہت ہی نرالی شان کے بزرگ اور اپنی طرز کے یگانہ روزگار تھے۔ حضرت منصور ہمہ اوقات عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے اور میدان توحید و معرفت میں دوسرے اہل خیر کی طرح آپ بھی شریعت و سنت کے متبعین میں سے تھے۔ آپ اٹھارہ سال کی عمر میں تستر تشریف لے گے اور وہاں دو سال تک حضرت عبداللہ تستری رحمتہ اللہ علیہ کی صبحت سے فیض یاب ہونے کے بعد [[بصرہ]] چلے گے۔ پھر وہاں سے دوحرقہ پہنچے جہاں حضرت عمرو بن عثمان مکی رحمتہ اللہ علیہ سے صبحت سے فیضیاب ہو کر حضرت یعقوب اقطع کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا لیکن حضرت عمرو بن عثان مکی کی ناراضگی کے باعث حضرت [[جنید بغدادی]] رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں [[بغداد]] پہنچ گے۔ اور وہاں حضرت جنید نے آپ کو خلوت و سکوت کی تعلیم سے مرصع کیا۔ پھر وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد [[حجاز]] تشریف لے گے اور ایک سال قیام کرنے کے بعد جماعت صوفیاء کے ہمراہ پھر [[بغداد]] آ گے وہاں پر حضرت جنید سے نہ معلوم کس قسم کا سوال کیا جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ تو بہت جلد لکڑی کا سر سرخ کرے گا یعنی سولی چڑھا دیا جائے گا۔ حضرت منصور نے جواب دیا کہ جب مجھے سولی دی جاے گی تو آپ اہل ظاہر کا لباس اختیار کر لیں گے۔
 
چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ جس وقت علماء نے متفقہ طور پر حسین منصور کو قابل گردن زدنی ہونے کا فتویٰ دیا تو خلیفہ وقت نے کہا حضرت [[جنید بغدادی]] جب تک فتویٰ پر دستخط نہ کریں گے منصور کو پھانسی نہیں دے سکتا اور
 
<br />
 
#
سطر 10 ⟵ 11:
 
 
اس وقت کے علمائے کرام نے آپکے قتل پراجماع کر لیا تھا کہ آپکے کافر اور زندیق ہونے کی بنا پر یہ واجب القتل ہے ۔
 
بعض مبینہ اقوال جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھہرے:
 
<br />
 
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتے تھے یعنی اللہ تعالٰی اس میں حلول کرگيا ہے تو وہ اوراللہ تعالٰی ایک ہی چیز بن گئے ہیں، اللہ تعالٰی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔
سطر 38 ⟵ 34:
جب اسے قتل کے لیے لے جایا رہا تھا تووہ اپنے دوست واحباب کو کہنے لگا تم اس سے خوف محسوس نہ کرو، بلاشبہ میں تیس روز بعد تمہارے پاس واپس آجاؤں گا، اسے قتل کر دیا گیا تووہ کبھی بھی واپس نہ آسکا ۔
 
ان اور اس جیسے دوسرے اقوال کی بنا پراس وقت کے علما نے اجماع کے بعد اس کے کفراور زندیق ہونے کا فتوی صادر کیا، اوراسی فتوی کی وجہ سے اسے 309 ھـ میں بغداد کے اندر قتل کر دیا گيا، اوراس طرح اکثر صوفی بھی اس کی مذمت کرتے اوریہ کہتے ہیں کہ وہ صوفیوں میں سے نہیں، مذمت کرنے والوں میں جنید اور ابوالقاسم شامل ہیں اورابوالقاسم نے انہیں اس رسالہ جس میں صوفیا کے اکثر مشائخ کا تذکرہ کیا ہے حلاج کوذکر نہیں کیا۔ قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں قاضی ابو عمر محمد بن یوسف مالکی رحمہ اللہ تعالٰی شامل ہیں انہیں کی کوششوں سے مجلس طلبمجلسطلب کی گئی اور اس میں قتل کا مستحق قرار دیا گیا ۔
 
ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ میں ابو عمر مالکی کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے فیصلے بہت ہی زیادہ درست ہوتے اور انہوں نے ہی حسین بن منصور حلاج کو قتل کیا۔۔