"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
بسم اللہ بن الرحمٰن الرحیم
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
ررررا
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 37:
اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے [[ملکہ سبا]] کو جو نامہ لکھا، اس کا آغاز بھی انہی مبارک کلمات سے کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
 
===== 2- یہ آیت دعا ہے میرا نام اردو ویکی سے پہلے لكهنا پڑھا گا سوه رررا =====
یہ کلام خبریہ نہیں ہے بلکہ [[سورہ فاتحہ]] کی طرح، جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا، یہ دعا ہے۔ ایک سلیم الفطرت آدمی کے دل کی یہ ایک فطری صدا ہے جو ہر قابل ذکر کام کرتے وقت اس کی زبان سے نکلنی چاہیے۔ اسی فطری صدا کو وحی الٰہی نے الفاظ کا جامہ پہنا دیا ہے اور ایسا خوبصورت جامہ پہنایا ہے کہ اس سے زیادہ خوبصورت جامہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی کام کرنے سے پہلے جب یہ دعا ارادہ اور شعور کے ساتھ زبان سے نکلتی ہے تو اول تو پہلے ہی قدم پر انسان کو متنبہ کر دیتی ہے کہ جو کام وہ کرنے جا رہا ہے وہ کام بہرحال خدا کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی پسند کے مطابق اور اس کے احکام کے تحت ہونا چاہیے۔ ثانیاً وہ اس دعا کی برکت سے خدا کی دو عظیم صفتوں، رحمٰن اور رحیم، کا سہارا حاصل کر لیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں اس بات کی ضمانت ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں اس کو برکت عطا فرمائے، اس کے اختیار کرنے میں اگر اس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اس کے وبال سے اس کو محفوظ رکھے، اس کو نباہنے اور تکمیل تک پہنچانے کی اس کو قوت وہمت دے، شیطان کی چالوں اور فریبوں سے اس کو امان میں رکھے اور دنیا میں  بھی اس کام کو اس کے لیے نافع اور بابرکت بنائے اور آخرت میں بھی یہ اس کے لیے رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنے۔ جو کام اس دعا کے بغیر کیا جاتا ہے وہ ان تمام برکتوں سے خالی ہوتا ہے اس وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کامبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِسے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہے۔ہے
 
بسم اللہ کی یہ برکتیں تو ہر کام کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں لیکن خاص قرآن کی تلاوت کا آغاز اس دعا سے کرنے میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جو پیش نظر رکھنے چاہئیں۔
 
ایک یہ کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِ سے قرآن مجید کی تلاوت کا آغاز کر کے بندہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل ابتدائی وحی نازل کرتے وقت ہی دیا تھا۔ اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (1۔ سورہ علق) یعنی اپنے خداوند کے نام سے پڑھ، جس نے پیدا کیا۔
 
دوسرا یہ کہ یہ مبارک کلمہ اس حقیقت کی یاددہانی کراتا ہے کہ انسان پر اللہ تعالی کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اس کو نطق اور گویائی عطا فرمائی جس کی بدولت وہ قرآن کی نعمت کا مستحق بن سکا۔ اس حقیقت کی طرف اللہ تعالی کی صفت رحمان اشارہ کر رہی ہے جس کا اس آیت میں حوالہ ہے۔ ایک دوسری جگہ یہ بات تصریح کے ساتھ کہی گئی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو نطق کی قابلیت عطا فرمائی اور اس کو قرآن کریم کی تعلیم دی۔ فرمایا ہے :
سطر 48:
تیسرا یہ کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید سے متعلق ایک خاص پیشین گوئی کی تصدیق کر رہی ہے جس کی سند پچھلے آسمانی صحیفوں میں موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ خلق خدا کو جو تعلیم دیں گے وہ اللہ کا نام لے کر دیں گے۔ حضرت [[موسیٰ علیہ السلام]] کی پانچویں کتاب باب 18۔ (18۔ 19) میں یہ الفاظ وارد ہیں۔
 
چوتھا یہ کہ جس طرح قرآن مجید خدا کی صفت رحمانیت کا مظہر ہے اسی طرح اس کی صفت رحمانیت ہی ہے جو قرآن کے فتح باب کی کلید ہے، اسی سے اس کے بند دروازے کھلیں گے، اسی سے اس کی مشکلات آسان ہوں گی، اس منبع فیض سے قاری محمد اکرم پر معانی و حقائق کا فیضان ہوگا اور اسی کے سہارے وہ کجی وگمراہی اور نفس اور شیطان کی آفتوں سے محفوظ رہے گا۔گا
 
===== 3- آیت کے اسمائے حسنی =====